السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے اہل حدیث بھائیوں کا یہ دعوی ہے کے بیس رکعت تراویح سنت سے ثابت نہیں ہے۔ صرف آٹھ رکعت ہی سنت ہیں اور یہ دعوٰی بھی کیا جاتا ہے کہ علماء حرمین صرف سنت پر عمل کرتے ہیں،جبکہ عالم عرب میں بہت ساری مسجدوں میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہیں، سوال یہ نہیں ہے کے کہ وہاں پر بیس تراویح پڑھی جاتی ہیں ،لہذا وہ حق پر ہیں۔ سوال یہ ہے وہ لوگ سنت کو چھوڑ کر بدعت پر عمل کیوں کرتے ہیں ؟ چلو یہ بھی مان لیا کے وہاں پر اتحاد کو قائم کرنے کے لیے بیس رکعت پڑی جاتی ہیں۔ تو کیا اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے سنت کو چھوڑ کر غیر سنت پر عمل کرنا غلط نہیں ہے۔ ؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تراویح سنتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے ۔ بحث صرف تراویح کی رکعات کی تعداد کے بارے میں ہے ۔ یہ بھی واضح ہے کہ لفظ تراویح مستند احادیث سے ثابت نہیں ہے ، رمضان کی اس صلوٰۃ (نماز) کے لیے جو لفظ عمومی طور پر استعمال کیا گیا ہے ، وہ "قیامِ رمضان" ہے ۔ بخاری کے الفاظ ہیں : عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، انه اخبره انه، سال عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على احدى عشرة ركعة ۔( بخاري: 2052 )سیدناابو سلمہ (رضی اللہ عنہ) ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھ رہے ہیں کہ رمضان میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نماز کیسی تھی ؟ تو انہوں نے فرمایا:آپ رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ بات تو ہم نے کبھی نہیں کہی ہے کہ علماء عرب معصوم ہیں ان سے غلطی نہیں ہو سکتی ہے۔اور میں نے اکثر مساجد میں آٹھ رکعات پڑھتے ہوئے بھی ان کو دیکھا ہے۔باقی یہ امر معلوم نہیں ہے کہ وہ کس بنیاد پر آٹھ پڑھتے ہیں۔اگر اتحاد کی بات ہوتی تو پھر متعدد امور میں وہ مخالفت بھی کرتے ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |