السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتا ن سے چند ایک احباب جما عت لکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے خطیب صا حب کی کچھ با تیں بہت عجیب سی معلو م ہو تی ہیں، وہ فر ما تے ہیں کہ حنفی، شا فعی، مالکی اور حنبلی اپنی مر ضی کے مطا بق دین بنا تے ہیں اس لیے یہ تمام فقہی مسا لک کے لو گ کا فر ہیں، ان سے نکا ح کر نا، ان کے پیچھے نماز ادا کر نا ،ان کے جنازے پڑ ھنا اور ان سے ورا ثت وغیرہ کے معاملات ممنوع ہیں۔ وہ بطو ر دلیل قرآن مجید کی اس آیت کو پیش کرتے ہیں کہ :
’’ جو لو گ اللہ کی طرف سے نا ز ل شدہ حکم کے مطا بق فیصلہ نہیں کر تے وہی لو گ کا فر ہیں۔‘‘ (5/المائدہ:44)
مہربانی فرما کر اس کے متعلق ہما ری را ہنما ئی فر ما ئیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کو کا فر کہنا، تکفیر کہلا تا ہے، فتنہ تکفیر بہت خطر نا ک، تبا ہ کن اور ہلا کت خیز ہے، اس امت میں سب سے پہلے اس فتنہ کو خوا رج نے برپا کیا ،جنگ صفین کے مو قع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کے درمیا ن یہ طے پا یا کہ حضرت عمر و بن العا ص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کریں وہ فر یقین کو قبو ل ہو گا، اسے معا ہدہ تحکیم کہا جاتا ہے ،خو ارج نے اس معا ہدہ کے آڑ میں امت کے پسندیدہ اور برگز یدہ حضرات کی تکفیر کی، انہو ں نے اپنے اس مو قف کے لئے قرآن پا ک کی ایک آیت بطو ر دلیل پیش کی وہ یہ ہے: "فیصلہ کرنے کا حق تو صرف اللہ کے لئے ہے ۔" (12/یو سف :40)
ان کا مطلب یہ تھا کہ جب فیصلہ کر نا اللہ کا حق ہے تو یہ حق بندو ں کے حوا لے کر نا کفر ہے اور یہ حق بندو ں کو دینے وا لے سب کا فر ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کے ذر یعے ان پر اتما م حجت کرتے ہو ئے ان کی غلطی کو واضح کیا، جب وہ با ز نہ آئے تو نہر وا ن کےمقام پر ان کی خوب سرکوبی کی ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہی کے متعلق فر ما یا تھا : کہ خا رجی اللہ کی مخلوق میں سے بد تر ین لو گ ہیں، انہو ں نے جو آیا ت کفار کے متعلق نا ز ل ہو ئی تھیں ان کو مسلما نو ں پر چسپا ں کر دیا ۔(صحیح بخا ری :المر تد ین ، باب 6)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ تکفیر کی سنگینی با یں الفا ظ بیا ن فرمائی کہ جب کو ئی شخص اپنے بھا ئی کو " اے کا فر " کہتا ہے تو ان دو نو ں میں سے ایک کا فر ہو جا تا ہے ۔) صحیح بخا ر ی ، کتا ب الا دب:6103)
اس حد یث کا مطلب یہ ہے کہ جس کو کا فر کہا گیا ہے اگر فی الحقیقت کا فر ہے تب تو وہ کا فر ہو ا ، اگر وہ واقعتا کافر نہیں تو کہنے ولا کا فر ہو گیا ، یعنی تکفیر دو د ھا ری تلوا ر ہے جس نے کسی ایک کو ضرور کا ٹنا ہے ،اس لیے کسی کو کا فر کہنے میں بہت احتیا ط کی ضرو ت ہے، ہما ر ے اسلا ف اس سلسلہ میں بہت محتا ط تھے ، وہ کسی کلمہ گو ا ہل قبلہ کو کا فر نہیں کہتے تھے، انہو ں نے تکفیر کے لئے قو اعد و ضو ابط وضع کئے ہیں جن کا ہم آیندہ تذکرہ کریں گے ۔ تا ہم امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکو رہ با لا حدیث پر بایں الفا ظ عنوا ن قا ئم کیا ہے: ’’ جو شخص اپنے بھا ئی کو بلا و جہ کا فر کہتا ہے وہ خو د کا فر ہو جا تا ہے۔‘‘ امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے اس فتنہ کی تبا ہ کا ر یوں کو بچشم خو د ملا حظہ کیا تھا۔ اس لیے وہ اپنی صحیح میں اس کے قوا عد و ضو ا بط کی طرف اشا رہ کرتے ہو ئے ایک عنوا ن یو ں قا ئم کر تے ہیں :’’ اگر کسی نے معقو ل وجہ کے پیش نظر یا نا دا نستہ طور پر کسی کو کا فر کہا کہنے وا لا کا فر نہیں ہو گا ۔‘‘(کتا ب الادب، باب: 74)
اس عنوا ن کے تحت امام المحدثین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش کیا ہے جب انہو ں نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا تھا کہ یہ منافق ہے اور ان کے پا س یہ کہنے کی معقول وجہ تھی کہ یہ کا فر وں سے دوستی رکھے ہو ئے ہیں اور ہما رے جنگی را ز اہل مکہ کو بتا تے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی کو دور فر مایا، لیکن مذکو رہ با لا حدیث کے پیش نظر آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں فر ما ئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " کہ عمر ! تجھے معلو م ہو نا چاہیے کہ اللہ تعا لیٰ نے اہل بدر کو عر ش پر سے دیکھا ہے اور انہیں مغفر ت کا پروا نہ عنا یت فرما یا ہے۔‘‘ ( صحیح بخا ر ی : کتا ب الاد ب ، با ب 74)
اسی طرح نا دا نستہ طو ر پر کلمہ کفر کہنے سے انسا ن کا فر نہیں ہو تا، چنانچہ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ دو را ن سفر اپنے با پ کی قسم اٹھا ئی اور غیر اللہ کی قسم اٹھا نا کفر یا شر ک ہے۔ لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تجد ید ایمان کے لئے نہیں کہا بلکہ ا ن کی لا علمی کو دور کر تے ہو ئے فرمایا :’’ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں با پ دادا کی قسم اٹھا نے کے لئے منع فر ما یا ہے ۔(صحیح بخا ری : الا دب 6108)
امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کے تر جمۃ البا ب سے تکفیر کے متعلق دواصول سا منے آتے ہیں :
(1) جہا لت اور لا علمی کی وجہ سے کو ئی کفر یہ کا م یا با ت سر زد ہو جا ئے تو اسے معذ ور خیا ل کیا جا ئے اور اسے کا فر کہنے کی بجائے اس کی جہا لت دور کی جا ئے اگر تمام حجت کے بعد بھی اصرار کرتا ہے تو اس کے بظاہر کلمہ گو ہو نے کا کو ئی فا ئدہ نہیں بلکہ وہ اصرار اور عنا د کی وجہ سے خا ر ج از ملت ہو گا ۔
(2) اگر کو ئی کفریہ کا م یا با ت کا مر تکب اپنے پا س کو ئی تا و یل یا معقول وجہ رکھتا ہے تو بھی اسے معذور تصور کیاجا ئے لیکن تا و یل کے لیے ضروری ہے کہ الفا ظ میں عر بی قا عدہ کے مطا بق اس تا ویل کی کو ئی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس عمل یا با ت کی تو جیہہ ممکن ہو ،اگر کسی کو اس کی تا ویل یا معقول وجہ سے اتفاق نہ ہو تو اسے کا فر کہنے کے بجا ئے با ت کے قا ئل یا کا م کے فا عل پر اس تا ویل یا معقو ل وجہ کا بوداپن وا ضح کر دیا جا ئے ۔امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کر دہ اصو لو ں کے علا و ہ چند مز ید ضوابط بھی ملا حظہ فر ما ئیں :
(3) اگر کو ئی انسا ن مجبورا کلمہ کفر یا شر کیہ عمل کرتا ہے تو اسے بھی معذو ر سمجھنا چا ہیے ، ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے : جو شخص ایما ن لا نے کے بعد پھر اللہ کے سا تھ کفر کر ے سوا ئے اس شخص کے جسے مجبو ر کیا گیا ہو در آنحا لیکہ اس کا دل ایما ن پر مطمئن ہو، ہا ں جس شخص نے کفر کے لئے اپنا سینہ کھو ل دیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب نا ز ل ہو گا اور ان کے لئے بڑا عذا ب ہے ۔(16/النحل : 106)
اس آیت کر یمہ میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ جب کسی مسلما ن پر ان گنت مظا لم تو ڑ ے جا رہے ہوں اور ناقابل برا دشت اذیتیں دے کر کلمہ کفر پر مجبو ر کیا جا رہا ہو تو محض جا ن بچا نے کے لئے کلمہ کفر کہہ دینے کی رخصت ہے بشر طیکہ دل عقیدہ کفر سے محفو ظ ہو، ایسے حا لا ت میں اللہ کے ہا ں کو ئی موا خذا نہیں ہو گا، البتہ مقا م عز یمت یہی ہے کہ خوا ہ آدمی کا جسم تکا بو ٹی کر ڈا لا جا ئے، بہر حا ل وہ کلمہ حق کا ہی اعلان کر تا رہے۔ حضرت خبا ب بن ا رت اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما اس مقا م عزیمت پر فا ئز تھے، البتہ حضرت عما ر بن یا سر رضی اللہ عنہ نے رخصت پر عمل کیا ۔
(4) اگر انسا ن پر شدت خو ف کی کیفیت طا ری ہو اور اس دہشت کے عا لم میں اگر زبا ن سے کلمہ کفر نکل جائے تو بھی قا بل موا خذ ہ نہیں ہے جیسا کہ ایک آدمی نے مر تے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد میر ی لا ش کو جلا د ینا ،پھر اس کی را کھ کو ہو ا میں اڑا دینا یا پانی میں بہا دینا، تا کہ اس طرح میں اللہ کے حضو ر پیشی سے بچ جا ؤ ں گا۔ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسا کر نے سے اللہ تعا لیٰ مجھے زندہ نہیں کر سکے گا، یہ کفر یہ عقیدہ ہے، چو نکہ ما ر ے دہشت کے ایسا ہوا ، اس لئے اسے معذور سمجھتے ہو تے معا ف کر دیا گیا ۔ (صحیح بخا ر ی : الا نبیا ء 3481)
(5)فرحت و انبسا ط کے عا لم میں انسا ن اگر اپنے جذبا ت سے مغلو ب ہو کر منہ سے کلمہ کفر کہہ دے تو یہ بھی قا بل معا فی ہے، جیسا کہ ایک آدمی دورا ن سفر پر اپنی سوا ری زاد سفر کے سا تھ گم کر بیٹھا ، نیند کے بعد جب اس نے او نٹنی کو اپنے سا منے دیکھا تو مار ے خو شی کے بطو ر شکر یہ الفا ظ کہتا ہے:’’ اے اللہ !تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہو ں ۔(صحیح مسلم : کتا ب التو بہ 6960)
ان واقعا ت کے پیش نظر ہم احباب جما عت کو نصیحت کر تے ہیں کہ مذکو رہ خطیب بڑ ی خطر نا ک فکر کا حامل ہے اسے سمجھا یا جا ئے، اگر وہ ایسی حر کا ت سے با ز آ جا ئے تو ٹھیک بصورت دیگر اسے خطا بت سے معز ول کر دیا جا ئے، سوال میں اس ذکر کر دہ آیت کر یمہ کو پہلے حکمرانوں کے خلاف استعما ل کیا جا تا تھا اور اس کی آڑ میں انہیں کا فر کہا جا تا تھا ۔ اب اس فکر نے تر قی کی ہے اور اسے بنیا د بنا کر عا مۃ النا س کی تکفیر کی گئی ہے ۔اس کے جوا ب میں ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی با ت پیش کر تے ہیں جو انہوں نے خوارج کے جواب میں کہی تھی " با ت صحیح ہے لیکن اس کا استعما ل غلط کیا گیا ہے اگر اس کاوہی مطلب جو خطیب نے کشید کیا ہے تو اس کی زد میں یہ خطیب بھی آتے ہیں ۔ مثلاً :حدیث میں ہے "کہ جس نے امیر کی اطا عت نہ کی اور جما عت سے الگ ہو گیا اگر اسی حا لت میں مو ت آئی تو جا ہلیت کی مو ت ہو گی ۔" (صحیح مسلم :کتا ب الامارۃ )
کیا بیعت کے بغیر زند گی بسر کر نا حکم بغیر ’’ما انزل اللہ‘‘ نہیں ہے۔ سقیفہ بنی سا عدہ میں جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو حضرت سعد بن عبا دہ رضی اللہ عنہ اس سے الگ تھلگ رہے ، پھر وہ شام کے علا قہ میں چلے گئے اور وہیں ان کا انتقا ل ہوا ۔ کیا اس حدیث کے پیش نظر ان کی مو ت بھی جاہلا نہ مو ت تھی ؟ اللہ تعا لیٰ ہمیں قرآن و حدیث کی نصوص کو صحیح طو ر پر سمجھنے کی تو فیق دے (آمین) ۔
ہمیں چا ہیے کہ ہم اتمام حجت کے طو ر پر دین اسلام کی تر و یج واشا عت میں لگے رہیں اور فتنہ تکفیر سے اپنے دا من کو آ لو دہ نہ ہو نے د یں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب