السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد بشیر بذریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ فرقہ با ز ی کیا ہے ؟ جسے اللہ تعا لیٰ نے معیو ب قرار دیا ہے، حکو مت اور عوام النا س بھی اس کی مذمت کرتے ہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل تفرق کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے : "جن لو گو ں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈا لا اور خود فرقوں میں بٹ گئے ، ان سے آپ کو کچھ سرو کا ر نہیں ان کا معا ملہ اللہ کے سپر د ہے ۔(6/الانعا م:159)
فرقہ با زی ایک ایسی لعنت اور با عث مذمت ہے جو ملت کی و حد ت کو پارہ پا رہ کر کے رکھ دیتی ہے جن لوگوں میں یہ عا د ت بد پا ئی جا تی ہے ان کی سا کھ اور عزت دنیا کی نظروں سے گر جا تی ہے ،اللہ تعا لیٰ نے فرقہ بند ی کو اپنے عذاب کی ایک شکل قرار دیا ہے ،چنا نچہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’ آپ ان سے کہہ دیجیے !اللہ اس با ت پر قا در ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کو ئی عذا ب نا ز ل کر ے یا تمہا رے پا ؤں کے نیچے سے کو ئی عذا ب مسلط کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک فرقے کو دوسرے سے لڑا ئی کا مزا چکھا دے ۔‘‘ (6/الانعا م :159)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت با لا میں ذکر کر دہ تمام قسم کے عذا بو ں سے اللہ کی پنا ہ ما نگی اور دعا کی کہ میر ی امت پر اس قسم کے عذاب نہ آئیں، چنا نچہ پہلی اور دوسری قسم کے عذا بو ں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبو ل ہو گئی مگر تیسری قسم کے عذا ب جو فر قہ بند ی سے متعلق ہے دعا قبو ل نہ ہو ئی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذا ب کو پہلے دو نو ں عذ ابو ں کی نسبت آسا ن قرار دیا ہے۔(صحیح بخا ری تفسیر 4628)
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی دو قسم کا عذا ب اس امت کے کلی استیصا ل کے لئے نہیں آئے گا، البتہ جز وی طور پر آسکتا ہے ،رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں مو جو د ہے جس نے ملت اسلا میہ کی و حد ت کو پا ر ہ پا رہ کر کے مسلمانوں کو ایک مغلو ب قو م بنا رکھا ہے ،چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گو ئی فر ما یا تھا : " بنی اسرائیل بہتر فر قو ں میں تقسیم ہو گئے جبکہ میر ی امت تہتر فر قو ں میں بٹ جائے گی، ایک گر و ہ کے علا وہ سب فر قے جہنم کا ایندھن ہو ں گے ۔صحا بہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نجا ت یا فتہ کو ن ہو ں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس راہ پر چلیں گے جس پر میں اور میرے اصحا ب ہیں ۔(جا مع تر مذی : الا یما ن 2641)
اس حدیث میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معیا ر کی نشا ندہی فر ما دی ہے جو قیا مت کے دن اس کے عذا ب سے نجا ت کا با عث ہو گا ۔ قرآن پا ک میں اسے صرا ط مستقیم اور سبیل المؤ منین کے نا م سے یاد کیا گیا ہے، اللہ تعا لیٰ نے دوسرے مقا م پر فر قہ با ز وں کو مشر کین کے لفظ سے ذکر کیا ہے، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’اور ان مشر کین سے نہ ہو جا ؤ جنہو ں نے اپنا دین الگ کر لیا اور گر وہو ں میں بٹ گئے، ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے ۔‘‘(30/الرو م :32)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہبی یا سیا سی فرقہ کا آغا ز بدعی عقید ہ یا بد عی عمل سے ہو تا ہے، مثلاً کسی رسول یا بزرگ کو اس کے اصلی مقا م سے اٹھا کر اللہ کی صفا ت میں شر یک بنا دینا یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فر ما یا ہے، پھر یہ فرقہ با ز ی عمو ماً دو قسم کی ہو تی ہے ۔
ایک مذہبی جیسے کسی امام کی تقلید میں با یں طور انتہا پسندی سے کا م لینا کہ اس امام کو منصب رسا لت پر بٹھا دینا گو یا وہ معصوم عن الخطا ہے یا کسی معمو لی اختلا ف کو کفر و اسلا م کی بنیا د قرار دینا یا یا کسی اہم اختلا ف کو باہمی رواداری کے خلا ف خیا ل کر نا وغیرہ ۔
دوسری سیا سی جیسے علا قا ئی ، قو می ، لسا نی بنیا دوں پر لو گو ں کو تقسیم کر نا۔ درج ذیل عقا ئد اس فرقہ بازی کی زد میں آتے ہیں ۔
(1)اللہ کے بجا ئے عوا م کی با لا دستی اور انہیں طا قت کا سر چشمہ قرار دینا ۔
(2)اللہ کی ذا ت اور ابنیا ء علیہم السلام کے معجزا ت کا انکا ر ۔
(3) کچھ ائمہ کو معصو م اور ما مون قرا ر دینا ۔
الغر ض جتنے بھی فرقے ہیں خواہ مذہبی ہو ں یا سیا سی، ا ن کا کو ئی عقیدہ یا عمل ضرو ر کتا ب و سنت کے خلا ف ہو گا۔ بد عی عمل کا تعلق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برعکس ہو تا ہے یعنی کسی سنت کو دیدہ دانستہ نظر انداز کر دینا یا کسی نئے کا م کو ثواب کی نیت سے شروع کر دینا وغیرہ، اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دین میں پہلے کمی رہ گئی تھی جو اس تر میم یا اضا فہ سے پو ری کی جا رہی ہے (اعا ذ نا اللہ منہ )
اگر مز ید غور کیا جا ئے تو گر وہ بندی کی تہ میں دو ہی اغرا ض پوشیدہ ہو تی ہیں، ایک ما ل کی محبت ،دوسرے اقتدار کی چا ہت۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ بکر یو ں کے کسی ریوڑ میں دو بھو کے بھیڑیے اتنی تبا ہی نہیں مچا تے جتنا ما ل کی محبت اور منصب کی چا ہت کسی کے ایما ن کو بر با د کر تی ہیں۔ (جامع تر مذی،الز ہد :2376)
اس فر قہ بندی سے محفو ظ رہنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ قرآ ن اور صحیح احا دیث کے مطا بق زندگی بسر کی جا ئے اوراس سلسلہ میں دا ئیں با ئیں جھانکنے سے اجتنا ب کیا جا سکے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب