سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) لفظ ’’مولانا ‘‘ کا استعمال

  • 11125
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2119

سوال

(05) لفظ ’’مولانا ‘‘ کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سمندری سے نادرخاں لکھتے ہیں کہ جما عت المسلمین وا لے علماءحضرات کو " مولانا " کہنا شر ک بتا تے ہیں اور وہ بطور حدیث یہ پیش کرتے ہیں کہ’’ کو ئی غلا م اپنے آقا کے لئے لفظ مو لیٰ استعما ل نہ کر ے کیونکہ تمہارا مو لیٰ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔‘‘(صحیح مسلم ۔کتاب الادب)

کیا واقعی علماءحضرات کو "مولانا" کہنا شر ک ہے ؟قرآن و حدیث کی رو سے اس کی وضا حت فر ما ئیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عزت و احترا م کے پیش نظر علماءحضرات کو "مو لا نا"یا "مولوی "کہا جا سکتا ہے اور ایسا کر نا شرک نہیں ہے، جیسا کہ جماعت المسلمین کی طرف سے یہ تا ثر دیا جا تا ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مو لیٰ کو غیر اللہ کے لئے استعمال فر ما یا بلکہ استعما ل کی تلقین بھی فرما ئی ہے ۔حدیث میں ہے کہ" تم میں سے کو ئی یوں نہ کہے کہ اپنے رب کو کھا نا دو اپنے رب کو وضو کرا ؤ،بلکہ اپنے آقا کے لئے "سید "اور "مولیٰ"کہا جائے۔ (صحیح بخا ری :کتا ب العتق )

اس حدیث کی رو سے غیر اللہ کے لئے لفظ "سید"کا استعمال بھی جا ئز معلوم ہو تا ہے جو صرف اعلیٰ اور محترم شخصیت کے لئے استعمال ہو تا ہے۔ تو لفظ مو لیٰ کا اطلاق تو با لا و لیٰ جا ئز ہو نا چاہیے جو اعلیٰ اور ادنیٰ دو نو ں کے لئے مستعمل ہے۔ علا مہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے پندرہ معا نی کے لئے اس کے استعمال کی نشاندہی فر ما ئی ہے ۔ جن میں آقا ،ما لک، ناصر،دوست،آزاد کنندہ اور آزاد کردہ غلا م وغیرہ بھی شا مل ہیں۔ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:کہ لفظ مو لیٰ ادنیٰ اور اعلیٰ دو نو ں کے لئے استعما ل ہو تا ہے جبکہ لفظ سید صرف اعلیٰ اور محترم ذات کے لئے مخصوص ہے، جب غیر اللہ کے لئے لفظ سید استعما ل ہو سکتاہے تو غیر اللہ کے لئے لفظ مو لیٰ کےاستعمال پر کرا ہت کی کو ئی معقو ل وجہ نہیں ۔(فتح البا ری :5/180)

مذکو رہ با لا سوال میں ذکر کر دہ الفا ظ ایک طویل حدیث کا حصہ ہیں بلکہ اصل حدیث میں اضا فہ کی حیثیت رکھتے ہیں، حدیث کا متن یو ں ہے کہ ’’ تم میں کو ئی اپنے غلا م کو "عبدی " نہ کہے کیو نکہ تم سب اللہ کے بندے ہو، چاہیے کہ میرا نو کر یا میرا خدمتگار کے الفا ظ کہے جا ئیں اسی طرح کو ئی غلام اپنے آقا کو "ربی " نہ کہے بلکہ اسے "سیدی "کہنا چا ہیے۔‘‘ (صحیح مسلم : کتا ب الالفا ظ من الادب )

یہ حدیث بروایت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کئی ایک طرق سے مرو ی ہے جن کی تفصیل کچھ یو ں ہے :

(1)جریر بن عبدالحمید عن الاعمش ،(صحیح مسلم)

(2)عبد اللہ بن نمیر عن الاعمش ۔(مسند امام احمد:2/496)

(3)یعلیٰ بن عبید عن الا عمش ۔(مسند امام احمد:2/496)

(4)ابو معا و یہ محمد بن حازم عن الاعمش ۔(صحیح مسلم )

 (5)ابو سعید عبد اللہ بن سعید الا شج عن وکیع عن الاعمش۔(صحیح مسلم)

یہ پا نچوں حضرات ثقہ اور بخا ری و مسلم کے رجال سے ہیں مؤ خر الذ کر دو حضرات یعنی ابو معا ویہ اور ابو سعید الا شج نے اس روا یت میں مذکو رہ با لا "اضا فہ" نقل کیا ہے جب کہ اول الذ کر تین راوی یعنی جر یر ابن نمیر اور یعلیٰ اس اضا فہ کے بغیر نقل کر تے ہیں ۔ روا یت میں مذکو رہ اضا فہ کو تسلیم کر نے یا نہ کر نے کے متعلق ہما رے سا منے دو را ستے ہیں ۔

(1)محدثین کے اصول کے مطا بق کہ ثقہ کا اضا فہ قبول ہو تا ہے، اس اضافہ کو قبو ل کیا جا ئے۔

(2)بیشتر ثقہ راویوں کی مخا لفت کی بنا پر اس اضا فہ کو شا ذ قرار دے کر صرف اصل حدیث کے الفا ظ کو تسلیم کیا جا ئے۔

ہما رے نزدیک مذکو رہ اضا فہ کے متعلق مؤخر الذ کر صورت زیا دہ را جح ہے ۔چنا نچہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :"امام مسلم نے حضرت اعمش سے منقول اس روایت کے متعلق اختلا ف نقل فر ما یا ہے ،چند راوی اس اضا فہ کو نقل کرتے ہیں جب کہ بعض دوسرے راوی صرف اصل حدیث ذکر کر نے پر اکتفا کرتے ہیں۔ قاضی عیا ض رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس اضا فہ کو روایت سےحذف کر دینا زیادہ صحیح ہے اور علا مہ قرطبی کا بھی یہی مو قف ہے ۔" (فتح الباری:5/180)

ہم نے اس اضا فہ کو شاذ قرار دیا ہے، اس کےدرج  ذیل دلا ئل ہیں :

(3)ابو سعید الاشج جب حضرت اعمش سے بواسطہ حضرت وکیع  روایت کر تے ہیں تو مذکو رہ الفا ظ یعنی اضا فہ نقل کر تے ہیں جبکہ حضرت وکیع  کے دوسر ے شا گر د اسے ذکر نہیں کر تے، دوسرے شاگردوں کی روایت کے الفا ظ یہ ہیں :"تم میں کو ئی بھی اپنے غلا م کو "عبدی" نہ کہے بلکہ خدمت گار کہہ کر آواز دے، اسی طرح کوئی غلام اپنے آقا کو "ربی " نہ کہے بلکہ وہ سیدی کے الفاظ استعما ل کرے۔‘‘ (مسندامام احمد:2/443)

اس وضا حت سے بلا اضا فہ روایت کے محفوظ ہو نے کا پہلو واضح ہو جا تا ہے ۔

(4)اضا فہ والی روایت کی سند یوں ہے :"ابو سعید " الاشج عن وکیع عن الاعمش عن ابی صا لح عن ابی ہریرۃ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جب ابو صا لح کے علاوہ دوسرے شا گر د اس روایت کو بیا ن کر تے ہیں تو وہ اس اضا فہ کو ذکر نہیں کر تے، ان کی تفصیل یہ ہے :

(1) عن العلاء بن عبد الر حمن عن ابیہ عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/463)

(2) ہشا م عن محمد بن سیر ین عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/491)

(3)ایو ب عن محمد بن سیر ین عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/423)

ان ہر سہ طرق میں مذکو رہ با لا اضا فہ نہیں ہے، حضرت جریر، ابن نمیر اور یعلیٰ کے سا تھ ان حضرات کو ملانے سے اس با ت کو تقویت ملتی ہے کہ مذکورہ اضا فہ غیر محفو ظ ہے۔

ہم نے شروع میں ایک حدیث کے حوالے سے لکھا ہے کہ اپنے آقا کو مو لیٰ کہا جا سکتا ہے جبکہ اضا فہ والی روایت میں اس کی صریح ممانعت ہے۔اس صورت حا ل کے پیش نظر ایک روایت کو مرجو ح قرار دئیے بغیر تطبیق کی کو ئی صورت سامنے نہیں آتی ۔ محدثین کرا م نےا ضا فہ کے بغیر صرف اصل روایت کو راجح قرار دیا ہے، چنا نچہ حا فظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ہم نے اضا فہ کو کا لعدم قرار دے کر ترجیح کی ایک صورت پیدا کی ہے کیوں کہ دو نو ں روا یات با یں طور متعارض ہیں کہ جمع و تطبیق نا ممکن ہے اور تا ریخ کا بھی علم نہیں تا کہ ایک کو نا سخ اور دوسری کو منسو خ  قرار دیا جا ئے ۔(فتح البا ری :5/180)

اس طرح علا مہ نو و ی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ راویا ن حدیث  نے حضر ت اعمش سے اس لفظ یعنی مو لیٰ کو نقل کر نے میں اختلاف کیا ہے بعض ذکر کر تے ہیں جبکہ کچھ دوسر ے ذکر نہیں کر تے، ہما رے نز دیک اس اضا فہ کا حذف کر دینا زیادہ صحیح ہے۔ (شرح نو وی 2/238طبع ہند )

مذکورہ بالا تصر یحا ت کی روشنی میں ان دو ثقہ راویوں ابو معا ویہ اور ابو سعید الاشج  کا یہ اضا فہ شاذ اور غیر محفو ظ معلوم ہو تا ہے اور انہی الفا ظ پر مما نعت کی بنیا د ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:29

تبصرے