السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحصیل شکر گڑ ھ سے ڈا کٹر ناصر شکیل با بر سوال کر تے ہیں کہ کیا ہمیں اپنے گنا ہوں کی اللہ سے معا فی ما نگتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دینا چا ہئے --؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وسیلہ اس سبب کو کہتے ہیں جو مطلو ب تک پہنچا ئے، وسیلہ کی دو اقسا م ہیں :
اس سے مرا د وہ طبعی سبب ہے جو اپنی فطرت کے اعتبا ر سے مقصود تک پہنچا ئے ، مثلاً:پا نی انسا ن کو سیرا ب کرنے کا وسیلہ ہے، اسی طرح سواری ایک جگہ سے دوسر ی منتقل کر نے کا وسیلہ ہے ، یہ قسم مؤمن اور مشرک کے ما بین مشترک ہے۔
اس سے مرا د وہ شرعی سبب ہے جو اس طر یقہ کے مطا بق منزل مقصود تک پہنچا ئے جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے ذریعے سے مقرر فر مایا ہو ۔ یہ وسیلہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خا ص ہے، جیسا کہ صلہ رحمی ، درازیٔ عمر اوروسعت رزق کا وسیلہ ہے وغیرہ۔
قرآن حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ شر عی وسیلہ کی صرف تین صورتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعا لیٰ نے جا ئز قرار دیاہے، ان صورتوں میں اپنے گنا ہوں کی اللہ تعا لیٰ سے معا فی مانگتے وقت رسول اللہ کا واسطہ دینا مشروع نہیں ہے، اللہ تعا لیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم برا ہ را ست اللہ تعا لیٰ سے دعا کر یں اور طلب حاجا ت کریں ۔وسیلہ کی جا ئز اقسام حسب ذیل ہیں:
مثلاً اس طرح کہا جا ئے کہ اے اللہ ! میں تجھ پر ایما ن رکھتا ہوں، تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر وی کرتا ہو ں ان نیک اعمال کے وسیلہ سے میر ے گناہ معا ف فر ما دے ۔
اصحا ب غا ر کا قصہ بھی اسی قبیل سے ہے جنہوں نے اپنے اعما ل کا وا سطہ دے کر اللہ سے دعا ما نگی تھی تو وہ غا ر سے بحفاظت نکل گئے تھے ۔ (متفق علیہ)
شر یعت میں اس کا بھی ثبو ت ملتا ہے کہ کو ئی مسلما ن شدید تکلیف کے وقت کسی نیک آدمی سے دعا کا مطا لبہ کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت قحط کے وقت ایک اعرا بی نے با ر ش کے لئے دعا کی اپیل کی تھی۔ (صحیح بخا ری )
ان تین وسا ئل کے علا وہ جتنے وسیلے ہیں وہ نا جا ئز ہیں، ان کا کتا ب و سنت میں کو ئی ثبو ت نہیں ہے ۔اس لیے اللہ تعا لیٰ سے دعا کرتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ نہیں دینا چا ہیے ۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب