السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحصیل شکر گڑ ھ سے ڈا کٹر ناصر شکیل با بر سوال کر تے ہیں کہ کیا ہمیں اپنے گنا ہوں کی اللہ سے معا فی ما نگتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دینا چا ہئے --؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وسیلہ اس سبب کو کہتے ہیں جو مطلو ب تک پہنچا ئے وسیلہ کی دو اقسا م ہیں :
(1)وسیلہ تکو ینی : اس سے مرا د وہ طبعی سبب ہے جو اپنی فطرت کے اعتبا ر سے مقصود تک پہنچا ئے مثلاً:پا نی انسا ن کو سیرا ب کر نے کا وسیلہ ہے اسی طرح ایک جگہ سے دوسر ی منتقل کر نے کا وسیلہ ہے یہ قسم مؤمن اور مشرک کے ما بین مشترک ہے۔
(2) وسیلہ شرعی : اس سے مرا د وہ شرعی سبب ہے جو اس طر یقہ کے مطا بق منزل مقصود پہنچا ئے جسے اللہ تعا لیای نے اپنی کتا ب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن کے ذریعے سے مقرر فر مایا ہو ۔ یہ وسیلہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خا ص ہے جیسا کہ صلہ رحمی درازی عمر اور سعت رزق کا وسیلہ ہے وغیرہ ۔
قرآن حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ شر عی وسیلہ کی صرف تین صورتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعا لیٰ نے جا ئز قرار دیاہے ان صورتوں میں اپنے گنا ہوں کی اللہ تعا لیٰ سے معا فی مانگتے وقت رسول اللہ کا واسطہ دینا مشروع نہیں ہے اللہ تعا لیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم برا ہ را ست اللہ تعا لیٰ سے دعا کر یں اور طلب حا جا ت کریں ۔وسیلہ کی جا ئز اقسام حسب ذیل ہیں :
عا لیہ کا وسیلہ دے کر دعا کر نا : مثلاً یو ں کہا جا ئے کہ اللہ ! رحمن و رحیم ہے مجھ پر رحم فر ما اور مجھے عا فیت دے ۔ارشا د با ری تعا لیٰ ہے : "اللہ کے سب نا م اچھے ہیں تو اس کے نا مو ں سے پکا رو ۔ "(7/الاعراف : (180)
مثلاً اس طرح کہا جا ئے کہ اے اللہ ! میں تجھ پر ایما ن رکھتا ہوں تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر وی کر تا ہو ں ان نیک اعما ل کے وسیلہ سے میر ے گناہ معا ف فر ما دے ۔اصحا ب غا ر کا قصہ بھی اسی قبیل سے ہے جنہوں نے اپنے اعما ل کا وا سطہ دے کر اللہ سے دعا ما نگی تھی تو وہ غا ر سے بحفاظت نکل گئے تھے ۔ (متفق علیہ)
شر یعت میں اس کا بھی ثبو ت ملتا ہے کہ کو ئی مسلما ن شدید تکلیف کے وقت کسی نیک آدمی سے دعا کا مطا لبہ کر ے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت قحط کے وقت ایک اعرا بی نے با ر ش کے لئے دعا کی اپیل کی تھی۔(صحیح بخا ری )
ان تین وسا ئل کے علا وہ جتنے وسیلے ہیں وہ نا جا ئز ہیں ان کا کتا ب و سنت میں کو ئی ثبو ت نہیں ہے ۔اس لیے اللہ تعا لیٰ سے دعا کر تے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ نہیں دینا چا ہیے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ