اگر کسی شخص کےبارے میں یہ کہا جائےکہ وہ شراب یا کوئی دوسری نشہ آور چیز استعمال کرتاہے ،مگر کہنے والے کو اچھی طرح معلوم ہو کہ شخص مذکور ایسی حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ یہ محض اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے کےلیے ایسا پروپیگنڈا کررہا ہے ، تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کسی مسلمان شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کےخلاف اس کی عزت اور شہرت کو داغدار کرنےکے لیے تہمت لگائے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’اے ایمان والو ! بہت زیادہ گمان سے کرنےسےبچو ، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اورعیب نہ ٹٹولا کرو ۔‘‘
اگر کسی انسان پر محض اپنےذہن میں وارد ہونے والے بعض خیالات کی بنیاد پر یا کسی کمزور سےقرینہ کی بنا پر عیب ،گناہ یا فسق و فجور کےالزامات عائد کرے تو یہ ایک حرام کام ہے اور اللہ تعالی کےاس فرمان کےمطابق منع ہے ، جس میں ارشاد الہی ہے :
’’اے ایمان والو ! بہت زیادہ گمان سے کرنےسےبچو ۔‘‘
انسان کو یہ بات جان لینا چاہیے کہ وہ اپنی زبان سے جو بھی لفظ ادا کرتا ہے اسےلکھ لیا جاتا ہے ، جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
’’کوئی لفظ انسان سےنہیں نکل پاتا مگر اس کو لکھنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود ہے ۔ ‘‘
یہ تو اس صورت میں ہے جب آپ کسی دوسرے کا کلام آگےنقل کریں ۔ جہاں تک آپ کے ہاں اس کلا م کی قبولیت کا سوال ہے تو آپ کےلیےیہ جائز نہیں کہ کسی ایسے شخص کا کلام قبول کریں جو حسد او رعداوت کی بنا پر کسی کےخلاف بول رہا ہوں ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
’’اےایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارےپاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیےپر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘
اگر کوئی شخص آپ کےپاس کسی کے بارے میں بری بات کہے تو اگر وہ شخص آپ کےنزدیک غیر عادل ہے توآپ تحقیق کریں ، اس لے کہ بعض لوگ بلا تحقیق و بلا احتیاط با ت آگے نقل کردیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کی کسی خاص شخص سےدشمنی ہوتی ہے وہ اس شخص کوبےعزت کرنا اور لوگوں کی نظروں سےگرانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس سےبدظن ہوجائیں ۔ آپ کےسوال کے جواب میں میں نے مناسب جانا کہ اس مسئلہ کی مختلف صورتوں کی طرف توجہ مبذول کروادی جائے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب