اللہ تعالی نے مجھے تین بیٹیاں عطا کیں اور اس پر میں نے اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا اور پھر میں نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی کہ اگر وہ مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں روزانہ نماز فجر مسجد میں ادا کیا کروں گا ۔ میں فرائض و سنت تمام نمازوں کو ان کے اوقات ہی میں ادا کرتاہوں سوائے فجر کے جسے میں بیدار ہونے پر گھر ہی میں ادا کرلیتا ہوں اور اسے مسجد میں ادا نہیں کرتا ۔ اللہ نے میری دعا کو قبول فرمالیا ، مجھے بیٹا عطا فرما یا میں نے اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا لیکن میں نماز فجر باقاعد ہ مسجد میں ادا نہیں کرنے لگا ، نماز فجر کےعلاوہ باقی تمام نمازیں بروقت ادا کرتاہوں لیکن نماز فجر میں سات بجے کام کے لیے گھر سےنکلنے سے پھلے ادا کرتاہوں امید ہے آپ میری رہنمائی فرمائیں گے کیا اس میں عہد شکنی کی وجہ سے میں گناہ گار تو نہیں ہونگا ؟ اب میرے لیے کیا واجب ہے ؟ کیااس وعدےکےوفاء نہ کرنےکی وجہ سے بچھ بیمار یا کسی دوسری تکلیف می مبتلا ہوسکتاہے ۔ براہ کرم راہنمائی فرمائیں ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیرسے نوازے ؟
فرض نماز کومسلمانوں کے ساتھ مل کر باجماعت ادا کرنا اہم واجبات میں سے ہے اور اس کے پیچھے رہنا اور نماز کو گھر میں ادا کرنا اللہ سبحانہ وتعالی کی نافرمانی ہے اور ان منافقوں کے ساتھ مشابہت ہے ، جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
’’منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک ) اللہ کو دھوکا دیتےہیں ( یہ اس کو کیادھوکا دیں گے ) وہ انہیں کودھوکے میں ڈالنے والاہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتےہیں تو سستارو کاہل ہوکر صرف لوگوں کو دکھاتے ہین اور یاد الہی تو یونہی برائےنام سی کرتےہیں ۔‘‘
اسی لیے اللہ تعالی نے ان کےبارے میں فرمایا ہے :
’’کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم ان کاکسی کو مدد گار نہ پاؤ گے ۔‘‘
اور نبی کریم ﷺ نےان کےبارے میں فرمایا ہے :
’’منافقوں پر سب سے گراں نماز عشاء کی نماز اور صبح کی نماز ہے اور اگر ان کو معلوم ہو جائےکہ ان نمازوں کا کس قدر اجر و ثواب ہےتویہ انہیں پڑھنے کےلیے ضرور آئیں خواہ انہیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے ۔‘‘
نماز پنجگانہ میں سےفجر کےباجماعت ادا کرنے کی زیادہ تاکید اور اہمیت آئی ہے ، لہذاآآپ کےلیے یہ واجب ہے کہ دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز فجر بھی باجماعت ادا کریں ۔ نماز فجر کو تاخیر کےساتھ اور گھر میں ادا کرنا جائز نہیں ہے ، اگر آپ ایساکریں گے تو خدشہ ہےکہ آپ کانفس ،اہل و عیال اور مال اللہ کے غضب و عتاب کی زد میں نہ آجائے کیونکہ گناہوں کےخطرات بہت عظیم اور ان کے انجام بہت خوفناک ہوتے ہیں ۔ نماز باجماعت اداکرنےسے پیچھے رہنا بدترین گناہ اور منافقوں کی علامت ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہےاور حدیث میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :
’’جو شخص اذان سنے اور پھر مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی الا یہ کہ اسے کوئی عذر ہو ۔ ‘‘
حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ عذر سے کیا مرا دہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ خوف یا مرض اور صحیح مسلم میں حدیث ہےکہ ایک نابینا شخص نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے پاس کوئی معاون نہیں ہے ، جو مجھے مسجد میں لے جاسکے تو کیا میرے لیے رخصت ہے کہ میں اپنےگھر میں نمازادا کروں ؟ آپ نے فرمایا :
’’کیا تم نماز کےلیے اذان سنتے ہو ؟اس نے عرض کیا : جی ہاں ، تو آپ نے فرمایا : پھر اس آواز پر لبیک کہو ۔‘‘
ایک روایت مین یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا :
(سنن ابی داؤد ، الصلاۃ ، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ ، ح : 552)
’’میں تمہائے لیے رخصت نہیں پاتا ۔‘‘
آپ نے تو اللہ تعالی سےیہ عہد کیا تھاکہ اگر وہ آپ کو بیٹا عطا فرمادے تو آپ باقاعدگی سے نماز فجر مسجد میں باجماعت ادا کیا کریں گے ۔ اللہ تعالی نے آپ کے اولاد نرینہ کےشوق کو پورا فرمادیا تو آپ بھی اللہ سے ڈریں ، اس کے حق کےادا کرنےمیں جلدی کریں اور اس کے فضل و کرم پر اس کا شکر ادا کریں ، اس سے آپ کو مزید خیر و بھلا ئی حاصل ہوگی جیسا کہ ارشادر باری تعالی ہے :
’’اور جب تمہائے پروردگار نے ( تم کو ) آگاہ کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیاہ دوں گا۔‘‘
نیز ارشاد باری تعالی ہے:
’’تم مجھے یادرکھو مین تمہیں یاد رکھوں اور میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو ۔‘‘
نیز فرمایا :
’’اے آل داود (میری نعمتوں کے ) شکر یہ میں نیک عمل کرو ،میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہی ہوتےہیں ۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اور تمام امت مسلمہ کو شکر گزاری اور کماحقہ ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب