ہم جانتے ہیں کہ معروف گانے موجودہ شکل میں حرام ہیں کیونکہ ان میں بے ہودہ اور فحش کلام ، موسیقی اور لہو و لعب ہوتاہے اور یہ گانے باکل بے فائدہ کلام پر مشتمل ہوتے ہیں ، ہم نوجوانان اسلام جن کے دلوں کو اللہ تعالی نے حق کے ساتھ روشن کردیا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ ان بے ہودہ گانوں کے بدلے میں کچھ اچھے گانوں کا انتخاب کرلیں ۔ ہم نے ایسے اسلامی گیت منتخب کیے ہیں ، جو شجاعت و بہادری اور پاکیزہ جذبات پر مشتمل ہیں ۔ یہ اشعار دعاۃ اسلام کے کہے ہوئے ہیں جیسا کہ سید قطب کا قصیدہ اخی۔۔۔ میرے بھائی! ۔۔۔ہے سوال یہ ہے کہ ان خالص اسلامی گیتوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو شجاعت وبہادری اور پاکیزہ جذبات پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ عصر حاضر وغیر حاضر کے کے دعاۃ اسلام کے اشعار ہیں ، جن میں سچےکلمات ہیں ، جو اسلام کی تعبیر اوردعوت پر مشتمل ہیں لیکن جب یہ گیت گائےجاتے ہین توان کے ساتہ طبلہ یعنی دف کی آواز ہوتی ہے کیاانہین سننا جائزہے ؟ میں یہ جانتاہوں اور میرا علم بہت محدود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب زفاف کے لیے طبلہ کوجائزقرار دیا ہے ۔ طبلہ آلات موسیقی میں سے سب سے خفیف آواز ہوتی ہے ، ایسے ہی جیسے کسی بھی چیز پرمارنے کی وجہ سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔ براہ کرم ہماری رہنمائی فرمائیں ۔ اللہ تعالی آپ کواپنی پسند اوررضا کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
کمیٹی نے اس سوال کا حسب ذیل جواب دیا : آپ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ گانے اپنی موجودہ شکل میں حرام ہیں کیونکہ یہ فحش اوربے ہودہ کلام پر مشتمل ہیں اور ان میں خیر و بھلائی کا کوئی عنصر نہیں بلکہ ان میں لہو و لعب ، خواہشات و جنسی جذبات کوابھارنا ارجنون اور ایسی گری ہوئی باتیں ہو تی ہیں جو ان کے سننے والوں کوشر میں مبتلا کردیتی ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ان گانوں کی بجائےآپ ایسےاسلامی گیت سن سکتےہیں جن میں حکمت و دانش ، وعظ و نصیحت اور درس عبرت ہواور وہ بہادری ، دینی غیرت اوراسلامی جذبات کوابھاریں اور شر اور اس کی اسباب سے نفر دلائیں تاتکہ ان کےسننے والے کانفس اللہ تعالی کی اطاعت کی طرف مائل ہواوراس کےمعصیت کےارتکاب کرنےاور حدود الہی سے تجاوز کرنےسےنفرت کرے اور اس کی بجائے اس کی شریعت اور اس کےراستےمین جہاد سے محبت کرےلیکن ان گیتوں کےسننےکو معمول اور عادت نہیں بنالیناچا ہیے،بلکہ مختلف مواقع کی مناسبت مثلابیاہ شادی ، جہاد کےلیےسفر اور ہمتون کی کمزوری وغیرہ کےموقع پر انہیں سن لیناچاہیے تاکہ نفس کوفعل خیر پر آمادہ کیاجاسکے اورنفس جب شر کیطرف مائل ہوتواسےبچانےارو اس سے نفرت دلانے کےلیے ان گیتوں کوسن لیا جائےلیکن ان گیتوں کےسننے سےبدرجہابہتر یہ ہےکہ انسان قرآن مجید کی تلاوت اورنبی اکرمﷺ سے ثابت اذکار کے ورد کو اپنامعمول بنالے کیونکہ یہ نفس کے تزکیہ ،شرح صدر کےلیے طہارت اور طمانیت قلب کےلیےگیتوں سےکہیں بڑھ کر مؤثر ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’اللہ نے نہایب اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں یہ (یعنی ) کتاب (جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی (ہیں ) اور دہرائی جاتی (ہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، ان کے بدن کے ( اس سے ) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) اللہ کی یا د کر طرف (متوجہ) ہو جاتے ہیں یہی اللہ کی ہدایت ہے ،وہا س سے جس کو چا ہتا ہے ، ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے ، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔‘‘
اور فرمایا :
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے آرام پاتے ہیں ( اللہ ان کو اپنی طرف پہنچنے کا راسبتہ دکھاتا ہے اور سن رکھو کہ اللہ ہی کی یاد سے دل آرام پاتےہیں ، جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے خوش حالی اور ہمدہ ٹھکانا ہے ۔ ‘‘
حضرات صحابہ کرام کا معمول اور عادت یہ تھی کہ وہ کتاب و سنت ہی کے یاد کرنے ،پڑھنے پڑھانے اوران کے مطابق عمل کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور اس کےساتھ ساتھ وہ کبھی کبھار گیت اور حدی بھی استعمال کرلیتے تھے مثلا خندق کھودتے ہوقت ، مساجد تعمیر کرتے وقت ارو جہاد کے لیے روانہ ہوتے وقت انہوں نے گیت استعمال کیے لیکن اسے انہوں نے اپنا شعار نہیں بنایا تھا ، البتہ کبھی کبھی انہوں نے نفسوں کو راحت پہنچانے اور جذبات کو ابھارنے کے لیے گیتوں کو استعمال کیا۔ ان اسلامی گیتوں کے ساتھ طبلہ اور دیگر موسیقی کا استعمال جائز نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام نے انہیں استعمال نہیں کیا اور اللہ ہی سیدھے رستے کی ہدایت فرمانے والا ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب