عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازکی طرف سے حضرت الاخ المکرم (ف ۔ ن ۔ م ) کےنام اللہ تعالی انہیں ہر نیک کام کرنےکی توفیق بخشے۔ آمین !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ ، وبعد : آپ کا خط موصول ہوا ۔ اللہ تعالی آپ کو ہدایت سے سرفراز فرمائے ۔ آپ نے اپنےخط میں یہ ذکر کرنےکےبعد کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرمالیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرمایا کرتے تھے ۔ یہ سوال پوچھا ہے کہ صدقہ اور ہدیہ میں کیا فرق ہے ؟ نیز اعانت اور ہبہ میں کیا فرق ہے ؟ کیا صدقہ رسول اللہ ﷺکےاہل بیت کےلیے بھی حرام ہے ؟ کیا آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل کےلیے بھی حرام ہے ؟ آپ کے نسب شریف کےثبوت کے لیے کیا طریقہ ہے ؟
ہدیہ اور صدقہ میں فرق یہ ہے کہ ہدیہ تو وہ تحفہ ہوتاہے ، جسے انسان محبت اوراحترام کیوجہ سے پیش کرتا ہے جب کہ صدقہ وہ ہوتاہے جسےانسان شفقت ، احسان اور اللہ تعالی سے طلب ثواب کےلیے پیش کرتا ہے ۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کےلیے ہدیہ حلال اور صدقہ حرام قرار دیا گیاتھا ۔ آپ کے اہل بیت بھی اس مسئلہ میں آپ کے تابع ہیں اور آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل بھی آپ کےاہل بیت میں سے ہے ۔ اعانت اور ہبہ کا حکم صدقہ کا ہے ہدیہ کا نہیں ، بشرطیکہ انسان کااس سے ارادہ عم گساری و ہمدری اوراللہ سبحانہ وتعالی سے حصول ثواب کا ہو اور اگر اس سے مقصود س انسان سے اظہار محبت ہو ، جس کی مدد کی جارہی اورجسےہبہ کیا جارہا ہو یا اس سے بدلہ لینا مطلوب ہوتو یہ ہدیہ کے حکم میں ہوگا کیونکہ جسے ہبہ کیا جارہا ہو اس کےلیے مشروع یہ ہےکہ وہ ہدیہ دینے والے کوبدلہ میں ہدیہ دے اور اگر بدلہ نہ دے سکتا ہو تو پھر اس کےلیے دعاکرے ، جب کہ صدقہ سے انسان کامقصود اللہ تعالی سے حصول ثواب ہوتاہے اس سے اس کامقصود مالی بدلہ یامحبت و شفقت کا اظہار نہیں ہوتا ۔
جہاں تک نسب شریف کے ثبوت کےطریقے کا تعلق ہے ،تو اسے کی امور سےمعلوم کیا جاسکتا ہے ۔1۔ثقہ مؤرخین کی طرف سے نص کہ فلان خاندان یاآل فلان اہل بیت میں سے ہیں ۔ 2۔ اہل بیت میں سے ہونے کےمدعی کےہاتھ میں بعض معتبر قاضیوں اور ثقہ علماء کی طرف سے شرعی دستاویز ہو کہ اسکا تعلق اہل بیت سے ہے ۔3۔ اس شخص کے شہر والے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہ جانتے ہوں کہ آل فلان اہل بیت میں سے ہیں ۔ 4۔ دو عادل شخصوں کی گواہی سےیہ ثابت ہو اوروہ اپنی شہادت کی دلیل قابل اعتماد اور ثقہ تاریخ سےیاقابل اعتبار دستاویز ات سے قابل اعتبار آدمیوں سے پیش کریں ،محض زبانی کلامی دعوئے کااعتبار تو نہ اس مسئلہ میں کیاجاتا ہے اور نہ کسی اور مسئلہ میں ۔ اگر مدعی یہ جانتا ہوکہ وہ اپنےدلائل کی روشنی میں سچا ہے ، تو اسے اپنے اعتقاد کے مطابق عمل کی وجہ سے زکوۃ قبول نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کے دعوی کو جاننےوالوں کو چاہیے کہ وہ اسے زکوۃ نہ دیں کیونکہ اپنے اعتراف و اقرار کے مطابق وہ زکوۃ کے مستحق لوگوںمیں سے نہیں ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب