سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(726) نیکی کی طرف چلنے کی فضیلت

  • 11102
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2101

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امید ہےکہ آپ کتاب وسنت کےایسےدلائل کی وضاحت فرمائیں گے،جن سےنماز یادیگر دینی واجبات مثلا حج ادا کرنے کے لیے چل کر جانے کی فضیلت ثابت ہوتی ہو ، مثلا ایک حدیث نبوی کا مفہوم یہ ہےکہ کسی نیکی یا دینی واجب کے ادا کرنے کےلیے اٹھنےوالےہر قدم کے عوض اللہ تعالی ایک نیکی یا صدقہ لکھ دیتےہیں ۔ کیا یہ حدیث حج ادا کرنے کے  لیے اٹھنے والے قدموں پر بھی منطبق ہوتی ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیکی کی طرف چلنے اور کوشش کرنے کی فضیلت کے بارے میں بہت سے عام نصوص ہیں ، جب کہ کچھ خاص نصوص میں مخصوص نیکیوں کے لیے اٹھنے والے قدموں کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿إِنّا نَحنُ نُحىِ المَوتىٰ وَنَكتُبُ ما قَدَّموا وَءاثـٰرَ‌هُم ۚ وَكُلَّ شَىءٍ أَحصَينـٰهُ فى إِمامٍ مُبينٍ ﴿١٢﴾... سورةيٰس

’’بےشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اورجو کچھ وہ آگےبھیج چکے اور ( جو ) ان کےنشان پیچھے رہ گئے ہم ان کو قلم بند کرلیتےہیں اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن (لوح محفوظ ) میں لکھ رکھا ہے۔‘‘

یہ آیت کریمہ عام ہے ، مساجدمیں نماز ادا کرنے کےلیے ،میدان جنگ میں جہاد فی سبی اللہ کےلیے ، علم نافع حاصل کرنے اور صلہ رحمی کرنےکے لیے اٹھنےوالے تمام قدموں کو یہ شامل ہے ،نیز انسان اپنی وفات کے بعد اگر کچھ اوقاف یادینی کتابوں  یا نیک اولاد کو چھوڑا ہوجو دوسروں کےلیے نفع کاباعث ہو ں تویہ اسے بھی شامل ہے ۔ اسی طرح اللہ  تعالی نے مجاہدین کےلیےفرمایا ہے :

﴿ما كانَ لِأَهلِ المَدينَةِ وَمَن حَولَهُم مِنَ الأَعر‌ابِ أَن يَتَخَلَّفوا عَن رَ‌سولِ اللَّهِ وَلا يَر‌غَبوا بِأَنفُسِهِم عَن نَفسِهِ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم لا يُصيبُهُم ظَمَأٌ وَلا نَصَبٌ وَلا مَخمَصَةٌ فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا يَطَـٔونَ مَوطِئًا يَغيظُ الكُفّارَ‌ وَلا يَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَيلًا إِلّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صـٰلِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ‌ المُحسِنينَ ﴿١٢٠﴾... سورةالتوبة

’’اہل مدینہ کو اور جو ان کےآس پاس دیہاتی رہتےہیں ان کو لائق نہ تھا کہ اللہ کےپیغمبر سے پیچھے رہ جائیں اورنہ یہ کہ اپنی جانوں کوان کی جان سےزیادہ عزیز رکھیں ،یہ اس لیے کہ انہیں اللہ کی راہ میں جو تکلیف پہنچی ہےپیاس کی یا محنت کی یا بھوک کی یا وہ ایسی جگہ چلتےہیں کہ کافروں کوغصہ آئےیادشمنوں سےکوئی چیز لیتےہیں توہر بات پر ان کےلیے عمل نیک لکھا جاتاہے ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔ ‘‘

اللہ تعالی نےنماز جمعہ ،ذکر الہی اورخطبہ سننےکے لیےجلدی کرنےکا حکم دینے ہوئے فرمایا :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ‌ اللَّهِ وَذَرُ‌وا البَيعَ ۚ ذ‌ٰلِكُم خَيرٌ‌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٩﴾... سورة الجمعة

’’اےمومنو! جب جمعےکےدن نماز کےلیے اذان دی جائے تواللہ کی یاد (نماز ) کےلیے جلدی کرو اور(خریدو ) فروخت ترک  کردو ۔ اگر سمجھو تویہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔‘‘

امام بخاری نے اپنی ’’صحیح ‘‘ میں حضرت انس بن مالک ﷜ کی روایت بیان کی ہے کہ بنو سلہ نےادارہ کر کی کہ وہ اپنےگھروں کو چھوڑ کر نبی اکرم ﷺ کے قریب منتقل ہوجائیں ،مگر نبی اکرم ﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑیں ، آپ نے فرمایا :

(الاتحتسبون آثارکم ) (صحیح البخاری ،الاذان ،باب احتساب الاثار ، ح : 656)

’’کیاتم اپنےقدموں کےآثار کے ثواب کوحاصل نہیں کرنا چاہتے ؟ ‘‘

امام مجاہد نےبیان کیاہے کہ اس سے مسجدوں کی طرف جاتے ہوئےقدموں کےنشانات مرادہیں ۔ امام بخاری و مسلم نے بطریق حضرت ابو ہریرہ ﷜ سےروایت کاہے کہ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا:

«مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَرَاحَ، أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ»

(صیح البخاری ، الاذان ،باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح ، ح : 662 وصحیح مسلم ، المساجد باب المشی الی الصلاۃ تمحی بہ الخطایا۔۔۔الخ ، ح : 669 واللفظ لہ )

 ’’ جو شخص صبح  یاشام کےوقت مسجد میں جائے تو جب بھی وہ مسجد میں جائے ، اللہ تعالی اس کےلیے جنت میں مہمانی تیار فرماتا ہے ۔‘‘

امام بخاری نے اپنی ’’صحیح ‘‘ میں بطریق حضرت ابو ہریرہ ﷜ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

" صَلاَةُ الرَّجُلِ فِي الجَمَاعَةِ تُضَعَّفُ عَلَى صَلاَتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَفِي سُوقِهِ، خَمْسًا وَعِشْرِينَ ضِعْفًا، وَذَلِكَ أَنَّهُ: إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى المَسْجِدِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلَّا الصَّلاَةُ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً، إِلَّا رُفِعَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، فَإِذَا صَلَّى، لَمْ تَزَلِ المَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ، مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، وَلاَ يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ "

 (صیح البخاری ، الاذان ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ ، ح : 647)

’’آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کےگھر اوربازار میں نماز ادا کرنے کی نسبت پچیس گنا زیادہ اجرو ثواب کا حامل ہے ۔ جب کوئی شخص بہت اچھے طریقے سے وضو کرے اور پھر مسجد کی طرف چلا جائے اور صرف نماز ہی کے لیے نکلے تو ہر قدم کےعوض اس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتاہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتاہے او رجب تک وہ اپنی جگہ پر نماز ادا کرتا  رہتاہے فرشتے اس کےلیے مسلسل یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تواسے برکت دے ۔ اے اللہ ! تو اس پر رحمت نازل فرما اورجب تک کوئی نماز کاانتظار کرتا رہے ، وہ نماز کے حکم میں ہوتا ہے ۔ ‘‘

امام مسلم نے نے اپنی ’’صحیح ‘‘ میں روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، (صحیح مسلم ، الذکر والدعا ، باب فضل الاجتماع علی اتلاوةالقرآن وعلی الذکر ، ح : 2699 )

’’ جو شخص طلب علم کے لیے کسی راستے پر چلےتو اللہ تعالی اسکےلیے جنت کے راستے کو آسان بنادیتا ہے ۔ ‘‘

صحیح بخاری ومسلم میں حجۃ الوداع کی احادیث کےضمن میں ہےکہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کےبعد تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ ’’ تمہارا اجر و ثواب  تمہاری تکلیف ۔۔۔یا آپ نے فرمایا کہ تمہارے خرچ ۔۔۔کےمطابق ہے ۔ ‘‘(صحیح البخاری ،العمرۃ ،باب اجر العمرۃ علی ہدر النصب ،حدیث 1787 وصحیح مسلم ، الحج باب بیان وجوہ الاحرام وانہ یجوز ۔۔الخ ، حدیث 1211)

 یہ تمام نصوص اس بات کی دلیل ہیں کہ نیکی اوراس کےوسائل کےمطابق ثواب ملتاہے اور اجر و ثواب مشقت ،پیدل چلنے اور جدید سواریوں کو استعمال  کرنےکےاعتبار سے مختلف ہوسکتاہے جیسا کہ مقام اور جگہ کے فضل و شرف اور اخلاص ،حضور قلب اور خشوع  کے اعتبار سے بھی اجرو ثواب مختلف ہوسکتا ہے مختصریہ کہ وسائل کے لیے نتائج  کےمطابق حکم ہوتا ہے او رمقدمات کے لیے جنس خیر و شر اور گناہ و اجر کے اعتبار سے مقاصد کا حکم ہوتا ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص546

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ