جو لوگ لواطت اور زنا وغیرہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوں ، جن کےبارے میں نصوص میں بہت شدید وعید آئی ہے ، کیا ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنا جائز ہے ؟ انہیں سلام کرنا جائز ہے ؟ اگر ان میں توبہ کرنےکے آثار ہوں تو کیا اللہ تعالی کی وعید اور اس کے عذاب سے ڈرنے کی غرض سے ان لوگوں کی صحبت اختیار کرنا جائزہے ؟
جن لوگوں پر ان گناہوں کا الزام ہو توواجب ہے کہ انہیں نصیحت کی جائے ، ان کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کی جائے اور ان کے بدترین انجام سے انہیں ڈرایا جائے اور بتایا جائے کہ یہ گناہ دلوں کےمرض ،قساوت اور موت کا سبب ہیں ۔ جو شخص ان گناہوں کا کھلم کھلا ارتکاب کرے تو وجب ہے کہ اس کےمعاملہ کو حکمرانوں کے سپرد کیا جائے اور اس پر حد قائم کی جائے ۔ ایسے لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ ان سے قطع تعلق کر لیا جائے، شاید اسی طرح اللہ تعالی انہیں ہدایت اور توبہ کی توفیق دے ۔ اگر قطع تعلق کرنے سے ان کی برائی میں اور اضافہ کا خطرہ ہو تو پھر واجب ہے کہ انہیں اچھے اسلوب کے ساتھ ہمیشہ سمجھایا جائے اور نصیحت کی جائے حتی کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت عطا فرمادے۔ایسے لوگوں کو دوست نہیں بنانا چاہیے ۔ اسلامی ممالک حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کو پکڑیں اور ان پر شرعی حدود قائم کریں اور جوشخص انکے حالات سے باخبر اسے چاہیے کہ وہ حکومت کی مدد کرے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’اور( دیکھو!) تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو ۔‘‘
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کےدوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتےہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
’’عصر کی قسم کہ انسان نقصان میں ہےمگر وہ لوگ جو ایمان لائے اورنیک اعمال کرتےرہے او ر آپس میں حق (بات ) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(صحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان ۔۔۔الخ ، ح : 49)
’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تواسےاپنےہاتھ سےمٹادے ، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے (سمجھادے ) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے ( برا جانے ) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ ‘‘
نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے :
(صحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان ان الدین النصیحۃ ، ح : 55)
’’دین خیر ہمدردی ارو خواہی کانام ہے ۔ ہم نےعرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کس کے لیے (ہمدردی و خیر خواہی ؟ ) آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے ، اس کی کتاب کےلیے ، اس کے رسول کےلیے ،مسلمان حکمرانوں کےلیے اور عامۃ المسلمین کےلیے ۔ ‘‘
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات و احادیث ہیں ۔ ہم اللہ تعالی سےدعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمان کےحالات کی اصلاح فرمائے، انہیں دین کی سمجھ بوجھ بخشے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرنےکی توفیق عطا فرمائے ،انہیں ہدایت پر جمع فرمائے اور ان حکمرانوں کی بھی اصلاح فرمائے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب