سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(716) خود کشی

  • 11092
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1064

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 خود کشی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خود کشی انسان کا اپنے آپ کو قصدا و ارادہ کےساتھ قتل کرنا ، خواہ اس کامطب کوئی بھی ہو ، حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے اور یہ حسب ذیل ارشاد باری تعالی کےعموم میں داخل ہے :

﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سورة النساء

’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے ، جس میں وہ ہمیشہ (جلتا ) رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کےلیے اس نے بڑا (سخت ) عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘

اور سنت سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا : ’’جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کرے تو اسے  اس کے ساتھ آتش جہنم میں عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔‘‘(صحیح البخاری ، الطب ، باب شرب السم والدواء بہ ، وما یخاف منہ والخبیث ، حدیث : 5778 وصحیح مسلم ،الایمان باب بیان عظ تحریم قتل الانسان ۔۔۔۔الخ ، حدیث : 109 )

جو شخص اللہ تعالی یا مخلوق کی طرف سے پہنچنے والی کسی مصیبت کی وجہ سے خود کشی کرتا ہے ، تو وہ گویا اس مصیبت کو برداشت نہیں کرتا اور خود کشی کرلیتا ہے ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی دھوپ سے بچہنے کے لیے آگ کاسہارا لے کیونکہ خود کشی کرکےوہ بد سے بد ترین حالات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔ اگر وہ صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالی اس مصیبت کے برداشت کرنے کے لیے اس کی مدد فرماتا اور پھر ہمیشہ ایک جیسی صورت حال تو نہیں رہتی بلکہ جیساکہ کہا گیا ہے ۔ ع

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص541

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ