سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(676) بچے کی پرورش

  • 11053
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1461

سوال

(676) بچے کی پرورش
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک قریبی رشتہ دار خاتون سےشادی کی تھی اور اس کے بطن سے میرا ایک بچہ پیدا ہوا لیکن ہمارے تعلقات سازگار نہ رہ سکے حتی کہ بعض ایسےاسباب کیی بنا پر طلاق تک  نوبت پہنچے گئی ، جن کے یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب مشکل یہ ہےکہ میرے بچے کہ عمر نو سال ہوگئی ہے  اور میں جانتاہوں کہ ماں کا حق حضانت سات سال تک ہے اور اس کےبعد اختیار دیاجاتاہے اور ساتویں سال کے بعد جب میں شرعی عدالت میں کیا تاکہ اپنے بچے کو لے سکوں تو عدالت نے مجھے بتایاکہ نئےقانون کےمطابق اب اردن میں حق حضانت پندرہ سال کی عمر تک ہے۔ میں یہاں سعودی عرب میں مقیم ہوں اورجب چھٹیوں میں اردن جاتاہون اور بچے کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تومعلوم ہوتاہے کہ بچے کو بہت پکا کردیا گیااور اس کے خیالات کومسموم کردیا گیا ہے ۔ وہ راستے میں مجھے دیکھ کر بھاگ جاتا ہے بلکہ گالیاں دیتاہے اور مجھے پتھر مارنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ میں نےکوشش کی کہ اسے اپنےپاس بلاؤں ، اسےدیکھوں اور اس کے حالات معلوم کروں ،لیکن اس کی ماں نے اسےرد کردیا ۔ میں نے عدالت سےرجوع کیا تو عدالت نے مجھے بتایا کہ میں اسے ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ اور وہ بھی شیخ کے گھر میں یاعدالت میں مل سکتاہوں ۔ سوال یہ ہے کہ کیابچے کو دیکھنا اور اس کی اچھی تربیت کرنا میرا حق نہیں ہے ،کیاشریعت موجودہ صورت حال سےخوش ہے ، میں عدالتوں اور وکیلوں سے تنگ آگیا ہوں ،امید ہے کہ آپ مجھے کوئی حل بتائیں گے تاکہ میں اپنے بچے کو دیکھ سکوں اور اس کی اچھی تربیت کرسکوں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تربیت و پرورش کے مسائل اختلافی ہیں اورانکاعدالتوں سےہے لیکن ہم آپ کو یہ ضرور نصیحت کریں گے کہ عورت کےوارثوں سےاچھا معاملہ کریں باہمی معاملات کو خوش اسلوبی سےطے کرنے کےلیے اپنے اور عورت کے وارثوں کےدرمیان اچھےدوستوں کو ڈال لیں اور جس قدر ممکن ہو عورت اوراس کے ولی سے اچھا سلوک کریں تاکہ باہمی اتفا ق واتحاد سے مسئلہ حل ہوجائے ، اسی میں ان شاء اللہ سب کے لیے بہتری ہوگی اور اس میں آپ کے بیٹے کےلیےدین و دنیاکی مصلحت ہوگی ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص511

محدث فتویٰ

تبصرے