سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(310) کتنی مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے؟

  • 1105
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5387

سوال

(310) کتنی مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفر کی کتنی مسافت ہو جس کی وجہ سے مسافر نماز قصر ادا کر ے گا؟ کیا یہ جائز ہے کہ نماز کو جمع تو کر لیا جائے مگر قصر نہ کی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بعض علماء نے قصر کے لیے مسافت کی حد تراسی کلو میٹر بیان کی ہے اور بعض علماء نے کہا ہے کہ قصر کے لیے مسافت وہ ہے، جسے عرف عام میں سفر قرار دیا جائے، خواہ وہ اسی کلومیٹر سے بھی کم ہو اور جسے لوگ کہیں کہ یہ سفر نہیں تو وہ سفر نہیں ہے، خواہ وہ ایک سو کلو میٹر ہی کیوں نہ ہو۔

اسی آخری بات کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے بھی اختیار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جواز قصر کے لیے کسی معین مسافت کو بیان نہیں فرمایا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی کسی مخصوص مسافت کا تعین نہیں فرمایا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں:

«کَانَ النبیِ إِذَا خَرَجََ ثَلَاثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةِ فَرَاسِخَ  قصر الصلاة وصَلّٰی رَکْعَتَيْنِ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، ح:۶۹۱)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت کے لیے سفر فرماتے تو نماز قصر ادا کرتے اور صرف دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘

اختلاف عرف کی صورت میں مسافت کے تعین کے متعلق قول پر عمل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ بھی بعض ائمہ اور علماء مجتہدین کا قول ہے، لہٰذا اس میں بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں، اور اگر عرف و عادت باقاعدہ طے ہو تو پھر عرف کی طرف رجوع کرنا ہی درست ہے۔(1)

اب رہا سوال کہ جب قصر جائز ہو تو کیا جمع کرنا بھی جائز ہے؟ ہم عرض کریں گے کہ جمع قصر کے ساتھ مشروط نہیں ہے، جمع کا تعلق ضرورت وحاجت سے ہے۔ انسان کو سفر وحضر میں جب جمع کی ضرورت درپیش ہو تو جمع کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کی وجہ سے جب مسجد میں جانے میں مشقت اور دشواری محسوس ہو تی ہے تو لوگ نمازوں کو جمع کر کے ادا کر لیتے ہیں، اسی طرح جب موسم سرما میں شدید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو اور مسجد میں جانے میں مشقت درپیش ہو تو نمازوں کو جمع کر کے ادا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جب مال کے ضائع ہونے یا اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو انسان نماز کو جمع کر کے ادا کر سکتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  نے بیان فرمایاہے کہ:

«جَمَعَ رَسُولُ النبیِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَآءِ من غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب الجمع بين الصلاتين فی الحضر، ح: ۷۰۵)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو کسی خوف یا بارش کے بغیر جمع کیا۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا کہ آپ چاہتے تھے کہ ترک جمع کی وجہ سے امت کسی حرج میں مبتلا نہ ہوجائے۔ ضابطہ یہی ہے کہ ترک جمع کی وجہ سے جب انسان کسی حرج میں مبتلا ہو تو جمع کرنا جائز ہے اور اگر حرج نہ ہو تو پھر جمع کرنا جائز نہیں، سفر میں ترک جمع کی وجہ سے حرج کا اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا مسافر کے لیے جمع کرنا جائز ہے، خواہ اسے سفر کو جاری رکھا ہو یا اس نے اقامت اختیار کر لی ہو، چنانچہ مسافر کے لیے جمع اور مقیم کے لیے ترک جمع افضل ہے۔ اس سے یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ انسان جب کسی ایسے شہر میں مقیم ہو جس میں جماعت کا اہتمام ہو تو پھر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے، لہٰذا اس صورت میں نہ جمع کرے گا اور نہ قصر۔ اگر جماعت نہ مل سکی ہو تو پھر قصر کر لے اور جمع نہ کرے الایہ کہ اسے جمع کرنے کی ضرورت ہو۔


(1)جب تین فرسخ (پرانے تقریباً ۱۵ میل) کی تحدید حدیث سے ثابت ہے، تو پھر عرف وعادت کی طرف رجوع کرنے کو زیادہ درست قرار دینا کیونکر صحیح ہے؟ اس لیے فاضل مفتی رحمہ اللہ  کی یہ رائے مرجوح ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ سفر کی مسافت حدیث سے ثابت ہے اور وہ تین فرسخ ہے جو حافظ عبدالمنان صاحب نور پوریn کی تحقیق کے مطابق ۲۳ کلو میٹر بنتی ہے۔ یہ مسافت اپنے شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد شمار ہوگی۔

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ316

محدث فتویٰ

تبصرے