بہت سےلوگ جب کسی عادت یاشریعت کےخلاف کوئی کام کرتےہوئےدیکھتےہیں تو ’’حرام ‘‘ کالفظ استعمال کرتےہیں ،کیا اس لفظ کے استعمال کو وجہ سےگناہ گا یا اس کاکوئی مواخذہ نہیں ہوگا ؟
لوگ جس کو حرام کہتے ہیں اس کا تعلق یا تو ان امور میں سےہوگا ،جن کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ، مثلا ’’حرام ہےکہ یہ شخص زنا کرے ‘‘ یا ’’حرام ہےکہزبان جھوٹ بولے ‘‘ تو ان کاموں کےلیے حرم کالفظ استعمال کرنا صحیح اور شریعت کے مطابق ہے اور اگر کوئی چیز شریعت میں حرام نہ ہو تو اسے حرام قرار دینا اور اس کے لیے حرام کا لفظ استعمال کرنا شریعت کےمطابق ہے اوراگر کوئی چیز شریعت میں حرام نہ ہو تو اس حرام قرار دینا اور اس کے لیے حرام کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اس چیز سے اسے حرام قرار دینے کا شبہ ہوتا ہے ، جسے اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ہویا اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو قضاء و قدر سے روک دیا ہے کیونکہ حرمت سے ان کا مقصود حرمت قدری ہوتی ہے کیونکہ حرمت قدری بھی ہوسکتی ہے ارو شرعی بھی کہ جس چیز کا تعلق اللہ تعالی کے فضل سے ہوگا اس کی حرمت قدری ہوگی اور جس کا تعلق اس کی شریعت سے ہوگا، اس کی حرمت شرعی ہوگی ، لہذا اگر ان لوگوں کا مقصود شرعی طور پر حرام کردہ امر نہ ہو تو انہیں اس لفظ کے استعمال سے روکا جائے کیونکہ حرمت قدری کا تعلق اس سے نہیں بلکہ اس کا اللہ تعالی سے تعلق ہے ۔ اور جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے ، جسے پیدا کرنا چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے اور جسے روک دینا چاہے ، اسے وہ روک دیتا ہے ، لہذا میری رائے میں اس کلمہ کے استعمال سے انہیں پرہیز کرنا چاہیے خواہ ان کا مقصد صحیح ہی کیونکہ نہ ہو مثلا وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ بعید ہے کہ یہ واقع ہو یا یہ بات بعید ہےکہ ایسے نہ ہو ۔ بہر حال میری رائے میں اس لفظ کے استعمال میں بہت احتیاط کرنی چاہیے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب