سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(634) خفیہ عادت کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

  • 11011
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1525

سوال

(634) خفیہ عادت کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنجناب سے امید ہے کہ آپ مشت زنی کے بارے میں راہنمائی فرمائیں گے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ نیز اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خفیہ عادت یعنی مشت زنی حرام ہے۔ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اوراس کاانجام بہت بھیانک ہے جیساکہ ماہر اطباء نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے تذکرہ میں بیان فرمایا ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦﴾... سورة المؤمنون

’’اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے ) جو ان کا ملک ہوتی ہں کہ ( ان سے مباشرت کرنے سے ) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں تو وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی ) حدسے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اللہ تعالی نے اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمائے ہیں ، یہ عادت ان کے خلاف ہے ۔ یہ اپنے ہی نفص پر بہت ظلم و زیادتی ہے ۔ اسے ترک کرنا اور اس سے بچنا واجب ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ طریق استعمال کرنا چاہیے ، جس کی نبیﷺ نے راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :

«يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَنْكِحْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَا فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ» (صحيح البخاري، النکاح، باب من لم یستطع الباء ةفلیصم ، ح : 5066 وصحیح مسلم ، النکاح ، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیه ۔۔۔الخ ، ح: 1400 واللفظ له )

’’اے گروہ جواناں! تم میں سے جس کو استطاعت ہو تو وہ شادی کر لے کیونک یہ نظر کو خوب جھکانے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے اور جسے استطاعت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے روزہ  اس کی جنسی خواہش کو ختم کر دے گا۔‘‘

امید ہے کہ اس نبوی علاج سے اس خبیث اور حرام عادت کا ان شاء اللہ خاتمہ ہو جائے گا ۔ جسے روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو یا وہ اس خبیث عادت کو ترک نہ کرسکتا ہو تو اسے علا کے لیے طبیب کی طرف رجوع کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

" مَا أَنْزَلَ اللهُ دَاءً، إِلَّا قَدْ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ " (مسند احمد : 1؍413 وسنن ابن ماجه مختصرا ، ح : 3438)

’’اللہ عزوجل نے جو بیماری نازل کی ہے اس کی شفاء بھی اس نے نازل فرمائی ہے ، جس نے اسے جان لیا تو اس نے جان لیا اور جو اس سے ناواقف رہا تو وہ ناواقف رہا۔‘‘

اسی طرح نبیﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’’يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، ولاتداووا بحرام ،،(سنن ابی داؤد ، الطب باب فی الادویة المکروهة ، ح 3055 وجامع الترمذی ،الطب ، باب ماجاء فی الدواء والحث علیه ، ح 2038 )

’’اے بندگان الہی ! علا تو کرو مگر حرام اشیاء کے ساتھ علا ج نہ کرو۔‘‘

 ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو ہر برائی سے مخفوظ رکھے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص481

محدث فتویٰ

تبصرے