سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(626) فاسق کی غیبت

  • 11003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1395

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہو نہ اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہو بلکہ وہ ہر طرح کے ایسے برے عمق کرتا ہو جو اللہ تعال یاور اس کے رسولﷺ کی ناراضی کا باعث ہو تو کیا ایسے شخص کی غیبت کرنے جائز ہے تاکہ لوگوں کو اس کے  بارے میں مطلع یا جاسکے یا اس کی غیبت بھی جائز نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کے لوگوں کو ان کے بارے میں بتایا جائے، جن کا اللہ تعالی نےحکم دیا ہے او ران اعمال کی برائی اور خرابی کو بیان کیا جائے ، جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ اگر وہ بات مان لے خواہ تھوڑی ہی سہی تو حسب گنجائش اسے سمجھانے اورنصیحت کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے ورنہ حتی المقدور اس کے ساتھ میل جول سے اجتناب کیا جائے تاکہ انسان برائی سے بچ سکے اور دود رہ سکے اور اگر ضرورت ہوتو اس کے واجبات میں کوتاہی کرنے اورمنکرات کے ارتکاب  کرنے کو بیان کیاجاسکتاہے تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا جاسکے اورلوگ اس کے حالات سے آگاہ ہو کر اس کےشر سے محفوظ رہ سکیں اور اگر اس کے سسرال یا شرکاء یا اسے بطور ملازمت رکھنے والوں میں سے کوئی اس  کے بارے میں پوچھے تو پھر اس کے بارے میں بتانا واجب ہوگا اگر کسی شخص کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ اس جال میں نہ پھنس جائے تو کے شر سے بچانے کےلیے بھی اس کے سامنے اس کو صورت حال کو بیان کرنا واجب ہوگا تاکہ اہل خیر کو اس کے شر سے بچایا جا سکے اور یہ امید  رکھی جاسکے کہ یہ لوگوں کے عدم التفات کو دیکھ کر اپنے برے اعمال سے باز آ جائے گا لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ مخض اپنے اور لوگوں کے بلذذ کے لیے یا مجلسموں میں مخض زیب داستان کے لیے اس کی بد اعمالیوں اور برے اخلاق و عادات کا ذکر کیا جائے کیونکہ یہ شر پھیلانے کےمترادف ہوگا اور پھر اس سے نفس بے حس ہوجاتے ہیں اور ان میں برائی کا احساس ختم  یا کمزور ہوجاتاہے۔ اسی طرح آپ کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ اس کی طرف ایسی برائیوں کو منسوب کیا جائے جو اس نے کی ہی نہیں تا کہ اس  کے حال کو زیادہ برا اور اس کی صورت کو زیادہ بھیانک کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے کیونکہ یہ جھوٹ اور بہتان ہوگا اور اس سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص475

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ