سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) مکمل صف سے آدمی پیچھے کھینچنے کا کیا حکم ہے؟

  • 1100
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 1498

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ نمازیوں میں اس مسئلہ میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں اس وقت آئے جب جماعت کھڑی ہو چکی ہو، صف مکمل ہو گئی ہے اور اس کے لیے صف میں کوئی جگہ نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس مکمل صف میں سے ایک شخص کو پیچھے کھینچنا جائز ہے؟ یا وہ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھے؟ یا وہ کیا کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جب انسان مسجد میں آئے اور وہ یہ دیکھے کہ صف پوری ہوگئی ہے تو اس کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:

٭           وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز اداکرے گا۔

٭           یا صف میں سے کسی ایک شخص کو کھینچ کر اس کے ساتھ نماز پڑھے گا۔

٭           یا خود آگے بڑھ کر امام کے دائیں طرف کھڑا ہو کر نماز اداکرلے۔

یہ تین صورتیں اس وقت ہوں گی جب وہ نماز میں شامل ہو اور چوتھی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ جماعت میں شامل ہی نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چار صورتوں میں سے کون سی صورت بہتر ہے؟

ہمارے نزدیک ان چاروں میں سے پسندیدہ صورت یہ ہے کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا ہی صف بنا کر امام کے ساتھ نماز اداکرے کیونکہ نماز جماعت ادا کرنا اور صف میں شامل ہو کر ادا کرنا دونوں واجب ہیں۔ جب دونوں میں سے ایک یعنی صف میں کھڑے ہونے پر عمل مشکل ہو جائے تو دوسرا واجب، یعنی نماز باجماعت ادا کرنا تو بہرحال واجب ہوگا، اس لیے ایسے شخص سے ہم یہ کہیں گے کہ آپ صف کے پیچھے باجماعت نماز ادا کریں تاکہ جماعت کے ثواب کو حاصل کر سکیں، اس صورت میں عجز کی وجہ سے صف میں شامل ہونا واجب نہیں ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦ ... سورة التغابن

’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

اس کا شاہد یہ ہے کہ جب کوئی عورت اس حال میں نمازجماعت میں اداکرے کہ اس کے ساتھ اور عورتیں نہ ہوں تو ایک عورت صف کے پیچھے اکیلی کھڑی ہوگی، کیونکہ اس کے لیے شرعاً مردوں کی صف میں جگہ کھڑاہونا جائز نہیں اور جب اس کے لیے شرعاً مردوں کی صف میں جگہ نہیں ہے تو وہ اکیلی صف بنا کر نماز پڑھے گی۔ اسی طرح یہ شخص جب مسجد میں آیا تو صف مکمل ہو چکی تھی جس کی وجہ سے اس کے لیے صف میں کوئی جگہ باقی نہ تھی، لہٰذا اس سے صف بندی ساقط ہوگئی، البتہ نماز باجماعت واجب رہی، اس لئے وہ صف کے پیچھے اکیلا اداکرے گا۔ اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ اگلی صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کرے کیونکہ اس میں درج ذیل خرابیاں ہیں:

۱۔            صف میں خلا پیدا ہو جائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو مکمل کرنے اور ان میں خلا نہ چھوڑنے کا جو حکم دیا ہے، یہ عمل ا س کے خلاف ہے۔

۲۔           اس کھینچے جانے والے شخص کو فاضل سے مفضول جگہ کی طرف کھینچا جا رہا ہے اور یہ اس پر زیادتی ہے۔

۳۔           اس کی نماز میں خلل پیدا ہوگا کیونکہ اس نمازی کو جب پیچھے کھینچا جائے گا تو اس سے اس کے دل میں حرکت پیدا ہوگی اور یہ بھی ایک طرح سے اس پر زیادتی ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ أخیر میں آنے والا شخص امام کے ساتھ جا کھڑا ہو جائے،اور یہ بھی درست نہیں کیونکہ امام کی جگہ مقتدیوں سے الگ ہونی ضروری ہے۔ جس طرح اقوال و افعال کے اعتبار سے اسے مقتدیوں پر سبقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ تکبیر، رکوع اور سجدہ ان سے پہلے کرتا ہے، اسی طرح جگہ کے اعتبار سے بھی امام کو مقتدیوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت مطہرہ بھی یہی ہے کہ امام مقتدیوں سے آگے ہو، لہٰذا اگر کوئی مقتدی جا کر امام کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو امام کا امتیاز واختصاص ختم ہو جائے گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ313

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ