سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(615) پہچان کے لیے جانوروں اور مویشیوں کو داع لگانا

  • 10992
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1046

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فقہ میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سےمعلوم ہوتاہے کہ جانوروں اور مویشیوں کے چہروں پر داغ لگانا حرام ہے لیکن ہم بادیہ نشین لوگ اپنےجانوروں کو داغ لگانے پر مجبور ہیں تاکہ وہ چراگاہ میں دوسرے لوگوں کے جانوروں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور پھر اس طرح کے داغ لگے ہوئےجانوروں کا چوروں کےلیےچرانا اور انہیں فروخت کرنا بھی مشکل ہوتاہے ۔ تو کیا ان صورتوں میں جانوروں کو داغ لگانا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں سوال میں مذکور اغراض کے لیے جانوروں کو داغ لگانا جائزہے بشرطیکہ داغ چہرے پر نہ لگایا جائے کیونکہ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ میں صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت  میں ‎حاضر ہوا تو آپ کے ہاتھ میں ‎داغ لگانے والا آلہ تھا، جس کے ساتھ آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ لگارہے تھے۔ ((صحیح البخاری، الزکاة، باب وسم الامام ابل، حدیث 1502  وصحیح مسلم، اللباس ،باب جواز وسم الحیوان، حدیث2119)) احمد اور ابن ماجہ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بکریوں کے کانوں پر داغ لگارہے تھے۔ (مسند احمد، 3؍171 وسنن ابن ماجہ، اللباس، باب لبس الصوف، حدیث 3565) جہاں تک چہرے پر داغ لگانے کاتعلق ہے، تو یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے (صیح مسلم، اللباس، باب النہي عن ضرب الحیوان فی وجهه، حدیث 2116،2117)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص469

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ