السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فقہ میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سےمعلوم ہوتاہے کہ جانوروں اور مویشیوں کے چہروں پر داغ لگانا حرام ہے لیکن ہم بادیہ نشین لوگ اپنےجانوروں کو داغ لگانے پر مجبور ہیں تاکہ وہ چراگاہ میں دوسرے لوگوں کے جانوروں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور پھر اس طرح کے داغ لگے ہوئےجانوروں کا چوروں کےلیےچرانا اور انہیں فروخت کرنا بھی مشکل ہوتاہے ۔ تو کیا ان صورتوں میں جانوروں کو داغ لگانا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں سوال میں مذکور اغراض کے لیے جانوروں کو داغ لگانا جائزہے بشرطیکہ داغ چہرے پر نہ لگایا جائے کیونکہ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے والا آلہ تھا، جس کے ساتھ آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ لگارہے تھے۔ ((صحیح البخاری، الزکاة، باب وسم الامام ابل، حدیث 1502 وصحیح مسلم، اللباس ،باب جواز وسم الحیوان، حدیث2119)) احمد اور ابن ماجہ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بکریوں کے کانوں پر داغ لگارہے تھے۔ (مسند احمد، 3؍171 وسنن ابن ماجہ، اللباس، باب لبس الصوف، حدیث 3565) جہاں تک چہرے پر داغ لگانے کاتعلق ہے، تو یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے (صیح مسلم، اللباس، باب النہي عن ضرب الحیوان فی وجهه، حدیث 2116،2117)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب