السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گھر میں ایک کتیاہے ، جسے ہم اس وقت گھر لائےتھے جب ہمیں گھر میں بلا ضرورت کتا رکھنے کے بارے میں حکم معلوم نہ تھا اور جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا تو ہم نے کتیا کو بھگایا مگر وہ نہ گئی کیونک وہ گھر سے مانوس ہوگئی تھی اور میں اسے قتل بھی نہیں کرنا چاہتا ،تو اب اس مسئلہ کا حل کیا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان امور کے سوا کتا پالنا حرام ہے ، جن کی شریعت نے اجازت دی ہے اور شریعت نے شکار کے لیے یا مویشیوں اور کھیتوں کی حفاظت کے کے لیے کتا رکھنےکی اجازت دی ہے اور جو شخص ان امور کے علاوہ بلا ضرورت کتا رکھتا ہے تو اس کے اجر و ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے اور جب ثواب میں ایک قیراط کمی کی جاتی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ شخص گناہ گار ہے کیونکہ اجر و ثواب کا ختم کر دینا یا گناہ کاحاصل ہونا دونوں ہی اس عمل کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔
اس مناسبت سے میں ان تمام فریب خوردہ لوگوں کو جو کتے پالنے کے شو ق میں کافروں کے فعل سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں ، یہ نصیحت کروں گا کہ کتا ایک خبیث جانور ہے اور جانوروں کی نجاستوں میں سے اس کی نجاست بہت زیادہ ہے کہ یہ اس وقت تک پاک ہی نہیں ہوسکتی جب تک اسے سات بار نہ دھویا جائے ، جن میں سے ایک بار اسے مٹی سے پاک کیا جائے ۔ کتا اس قدر نجس ہےکہ خنزیر جو کہ نص قرآنی کی رو سے حرام اور ناپاک ہے، اس کی نجاست بھی کتے کی نجاست کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔
کتا نجس اور خبیث ہے لیکن افسوس ہےکہ بعض لوگ جو کفار کی نقالی کا شوق رکھتے ہیں ، وہ بھی ناپاک چیزوںکو پسند کرتے ہیں اور بلا ضرورت و حاجت کتے رکھنے لگ جاتے ہیں، انہیں اپنے گھروں میں رکھتے ، پالتے پوستے اور انہیں صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ کبھی پاک صاف ہو ہی نہیں سکتے خواہ انہیں دریاؤں اور سمندروں کے پانیوں کے ساتھ کیوں نہ دھویا جائے کیونکہ یہ نجس عین ہیں ۔ پھر یہ لوگ کتے پر بہت زیادہ مال صرف کر کے اسے ضائع کرتے ہیں اورنبی کریم ﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
میں ان فریب خورد لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سامنے توبہ کریں ۔ کتوں کو اپے گھروں سے نکال دیں ۔ البتہ اگر کسی شخص نے شکار کے لیے یامویشی اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا رکھا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم ، الطہارہ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث :280)
اب ہم اپنے اس بھائی کے سوال کے جواب میں عرض کریں گےکہ جب آپ اس کتیا کو اپنےگھر سے نکال دیں گے تو پھر آپ اس کے بارےمیں جواب دہ نہیں ہونگے۔ آپ اسے اپنے پاس نہ رکھیں ،نہ اسے جگہ دیں ہوسکتا ہے کہ جب یہ گھر کے دروائے کے باہر ہی رہے تو چلی جائے اور شہر سے باہر نکل جائے اور اللہ تعالی کے رزق کو کھانے لگے جس طرح کہ دیگر کتے کھاتےہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب