السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تاش کھیلنے کے بارے میں کیا حکمہے کیونکہ جب یہ کھیل کھیلنے والے (کھیلنے کے لیے) بیٹھتے ہیں تو وہ نہ اذان کی آواز کا جواب دیتے ہیں ، نہ اذان کے اختتام پر اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کو سن کر اس کے بارے میں وارد دعاہی پڑھتے ہین۔ لوگ اذان سن کر مسجد میں نماز کے لیے چلے جاتے ہیں مگر یہ لوگ اپنے کھیل میں مگن ہو کرے بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ نمازسے فراغت حاصل کر کے جب مسجد سے واپس آتے اورانہیں سلام کہتے ہیں تو یہ سلا م کا جواب تک نہیں دیتے کیونکہ یہ دل و دماغ کے ساتھ اپنے اس کھیل میں بری طرح مشغول ہوتے ہیں اور پھر جس گھر میں بیٹھے یہ کھیل رہے ہوں وہاں سگریٹ کے دھوئیں، شور وغوغا، ہنسی مذاق، لعن طعن اور کثرت سے کھائی جانےوالی قسموں، جن میں سے یہ کچھ اللہ کے نام کی اور کچھ غیر اللہ کے نام کی ہوتی ہیں، کی وجہ سے انسان وہاں بیٹھ بھی نہیں سکتا لہذا سوال یہ ہے کہ اس کھیل کے بارےمیں کیا حکم ہے، اس کے کھیلنے والے کو کیا گناہ ہوگا اور معاشرہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جیساکہ سائل نے بیان کیا ہے ، تاش کے پتوں کا کھیل اللہ کے ذکرے سے اورنماز سے روکتاہے ۔ کھیلنے والوں کے دلوں میں یہ عداوت اور بغض پیدا کرتا ہے ۔ کبھی اس کھیل میں مال کی شرط بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ہارنے والا جیتے والے کومال بھ دیتاہے ، اور پھر اس میں لعن طعن اور جھوٹی قسمیں بھی ہوتی ہیں لہذا جب اس کھیل کے یہ نتائج ہیں تو یہ حرام ہے ،کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١﴾... سورةالمائدة
’’اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت او رپانسے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں ، سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم نجات پاؤ ۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے )باز رہنا چاہیے۔‘‘
تاش کھیلنے والے ایک حرام کام کا ارتکاب کرتے ہیں لہذا وہ اس کی وجہ سے بھی کناہگار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جو واجب کو چھوڑتے ہیں مثلا وہ نماز باجماعت ادا نہیں کرسکتے یا دیگر حرام امور مثلا لعن طعن ، جھوٹی قسموں ، غیر اللہ کے نام کی قسموں اور سگڑیٹ نوشی کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے بھی گناہگار ہیں۔
جہاں تک اس کھیل کے معاشرے پر اثرات کا تعلق ہے تو ایک سلیم معاشرے کی بنیادیں دو باتوں سے مضبوط ہوتی ہیں ۔1۔ اللہ تعالی کے احکام کی اتباع کی جائے اور ۔2۔ اس نے جن کاموں سے منع کیا ہے، ان سے اجتناب کیا جائے ۔ اگر واجبات میں سے کسی چیز کو ترک کردیا جائے یا محرمات میں سے کسی کا ارتکاب کیا جائے تو اس سے معاشرہ کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں ۔ یہ کھیل بھی ان عوامل میں سے ہے، جو معاشرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ یہ نماز با جماعت کے ترک کا سبب بنتا ہے۔ اس کھیل سے آپس کے تعلقات کشیدہ ہوتے اور ایک دوسرے سے دوری، قطع رحمی اور کینہ پیدا ہوتاہے اور محرمات کا ارتکاب ہونے لگتا ہے۔ اس کھیل کی وجہ سے انسان اپنا رزق کمانے میں بھی سستی کرنے لگتاہے اور اگر اس کھیل میں مالی شرط لگائی جائے تو اس سے حاصل ہونے والا مال حرام ہوگا جیسا کہ اس کا جواب آغاز میں اس کی دلیل بیان کی جاچکی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب