السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص خون کی کمی میں مبتلا ہے اور ہسپتال نے اس کے لیے خون کا مطالبہ کیا ہے ، جب کہ ہمارے ہاں مشہور بات یہ ہے کہ خون نجس ہے تو سوال یہ ہے کیا اس مضطر مریض کے لیے خون کا عطیہ دینے کی رخصت ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علاج معالجہ کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ ایسی چیزوں کے ساتھ ہو جو شرعا جائز ہوں لیکن جب مریض کی تقویت یا علاج کے لیے کسی دوسرے کے خون کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہو اور مریض یا ضعف سے بچانے کے لیے صرف یہی ایک طریقہ ہو اور ڈاکٹروں کا ظن غالب یہ ہو کہ اس سے مریض کو فائدہ پہنچے گا تو خون کے ساتھ اس کے علاج کرنے اور بیماری او رضعف سے اسے نجات دلانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٧٣﴾... سورة البقرة
’’اس نے تم پر مرا ہوا (مردار ) جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد(ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں ۔ بے شک اللہ بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والاہے۔‘‘
اور فرمایا :
﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّمَ عَلَيكُم إِلّا مَا اضطُرِرتُم إِلَيهِ ۗ ... ﴿١١٩﴾... سورةالانعام
’’جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرادی ہیں ، وہ ایک ایک کرکے بیان کردی ہیں (بے شک ان کو نہیں کھانا چاہیے ) مگر اس صورت میں کہ ان کے کھانے کے لیے ناچار ہو جاؤ۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب