السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا لقب عبدالقوی ہے، اسلام میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے ، کیا یہ کہنا جائز ہے کہ میرا بھروسہ اللہ پر ہے اورپھر آپ پر یایہ کہناے کہ بھئی میری امید آپ سے وابستہ ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جائز ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور آپ پر ، کیونکہ اللہ پر بھروسہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کام کو اللہ تعالی کے سپرد کردیاجائے کسی بندے پر بھروسہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کام کو بندے کے اس قدر سپرد کر دیا جائے جس قدر سے طاقت ہے ۔ تعالی کی اپنی مشیت ہے اور بندے کی اپنی مشیت لیکن بندے کی مشیت اللہ تعالی کی مشیت کے تابع ہے۔ فرمان تعالی ہے:
﴿لِمَن شاءَ مِنكُم أَن يَستَقيمَ ﴿٢٨﴾ وَما تَشاءونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ رَبُّ العـٰلَمينَ ﴿٢٩﴾ سورةالتكوير
’’اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی راہ چلنا چاہے اورتم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ تعالی چاہے ۔‘‘ اور فرمایا :
﴿إِنَّ هـٰذِهِ تَذكِرَةٌ ۖ فَمَن شاءَ اتَّخَذَ إِلىٰ رَبِّهِ سَبيلًا ﴿٢٩﴾ وَما تَشاءونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا ﴿٣٠﴾... سورةالدهر
’’یہ تو نصیحت ہے ، جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے کا راستہ اختیار کرے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو ، بے شک اللہ خوب جاننے والا ، حکمت والا ہے ۔‘‘
اس اصول کی طرف نبیﷺ نے راہنمائی فرمائی ہے ، اسلام نسائی نے حضرت قتیلہ کی روایت کو بیان کیا اور اس صحیح قرار دیا ہے کہ ایک یہودی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا تم بھی شرک کرتے ہو کیونکہ تم یہ کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور جو تم چاہو، نیز یہ کہتے ہو کہ کعبہ کی قسم! تو نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا :
إِذَا أَرَادُوا أَنْ يَحْلِفُوا أَنْ يَقُولُوا: " وَرَبِّ الْكَعْبَةِ وَيَقُولُ: أَحَدُهُمْ مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ شِئْتُ(سنن النسائی ،الایمان والنذور ، باب الحلف بالکعلة ، ح :3804)
جب وه قسم اٹھانے کا ارادہ کریں تو یہ کہیں رب کعبہ کی قسم !‘‘ اور یہ کہیں کہ ’’جو اللہ چاہے پھر تو چاہے۔‘‘
صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ آپ نے فرمایا :
لا تقولوا ما شاء الله وشاء فلان ولكن قولوا ما شاء الله ثم شاء فلان۔(سنن ابی داؤد ،الادب ،باب لایقال خبثت نفسی ،ح 4980)
’’یہ نہ کہو کہ جو اللہ اور فلا ں چا ہے بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چا ہے پھر فلا ں چا ہے۔‘‘
عبد القوی کے ساتھ کنیت یا نام رکھنے مین کوئی حرج نہیں کیو نکہ ’’القوی‘‘ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب