السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اخبار عکاظ کے شمارہ نمبر۶۱۰۱ مجریہ ہفتہ ۲۹ ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ میں ایک خبر پڑھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک سعودی نغمہ ساز نے گانا بجانا ترک کر دیا تھا لیکن جب قاہرہ اور پیرس کے مابین ایک ہوائی سفر کے دوران میں اس نغمہ ساز کی ملاقات ایک عالم دین سے ہوئی اور دونوں نے گانا بجانا اور اس کی مشروعیت کے موضوع پہ تبادلہ خیال کیا تو طیارہ سے اترنے سے پہلے اس عالم دین نے دلائل و براہین کے ساتھ اس نغمہ ساز کو قائل کرلیا کہ گانا بجانا شرعا جائز ہے،اور اس کے بعد اس نے دوبارہ گانے گائے جو اس کے نئے گانے شمار ہوتے ہیں،دلائل و براہین کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا گانا بجانا اسلام میں جائز ہے خصوصا عصر حاضر کے گانے جو فحش بھی ہیں اور پھر موسیقی کے ساتھ گائے جاتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور اہل علم کے نزدیک گانا حرام ہے اور اگر گانا طبلہ اور سارنگی جیسے آلات موسیقی کے ساتھ گایا جائے تو اس کے حرام ہونے پہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔اس کی حرمت کے دلائل میں سے ایک تو یہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورةلقمان
’’اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بے حودہ حکایتیں خریدتا ہے تکہ اللہ کے راستے سے [ لوگوں ]کو بغیر علم کے گمراہ کرے ،اور اس سے استہزاء کرے ،یہی وہ لوگ ہیں جن کو ذللیل کرنے والا ٰعذاب ہوگا۔‘‘ [جمہور مفسرین نے "لھو الحدیث" کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد گانا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود قسم اٹھا کر فرماتے ہیں اس سے مراد گانا ہے، نیز عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔
الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل، [ السنن الکبری۔للبیھقی ،:۲۲۳/۱۰ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاحی،ص ۷۳ سنن ابی داود، الادب، باب ، کراھیة الغناء والزمر، ح:۴۹۲۷ مختصرا:
’’گانا دل میں نفاق اس طرح پیدا کرتا ہے ،جس طرح پانی سے کھیتی پروان چڑھتی ہے۔‘‘
صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیکونن من امتی اقوام یستحلون ،الحر،والحریر،والخمر،والمعازف، [صحیح بخاری ،الاشربة، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر یسمیه بغیر اسمه ۔ح:۵۵۹۰]
’’میری امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زنا،ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھیں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں معلقا مگر صحت کے وثوق سے روایت کیا ہے ،جبکہ دیگر ائمہ نے بھی صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔حدیث کے لفظ "معازف" کے معنی گانے اور آلات موسیقی کے ہیں تو اس سے معلوم ہوا جس نے گانے کے جواز کا فتوی دیا[اگر یہ بات صحیح ہے] تو اس نے بغیر علم کے ایک بات کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اور ایک ایسا باطل فتوی دیا ہے کہ روز قیامت جس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب