السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین حفظہ اللہ تعالیٰ۔۔۔۔آج جو مصیبتیں عام ہوچکی ہیں 'ان میں سے ایک یہ تیلی وژن بھی ہے'جس سے بروبحر کا شائد کوئی گھر ہی خالی نہ ہوحالانکہ اس سے جو کچھ نشر کیا جاتا ہے وہ حسب ذیل ہے:
(1) گانا اپنی وسعت اور موسیقی اپنے مختلف آلات کے ساتھ
(2) جرم وسزا کی مسلسل کہانیاں
(3) خرافات پر مبنی فرضی ڈرامے
(4) مردوں اور عورتوں کی مخلوط اداکاری
(5) اسلام'مسلمانوں اور نیک لوگوں کی تاریخ کو مسخ کرنا کیونکہ ان کی عورتوں کو ان کے ساتھ بے پردہ دکھایا جاتا ہے۔جیساکہ تاریخی ڈراموں میں ہے۔
(6) بعض ڈراموں میں میاں بیوی کی ایک دوسرے سے خیانت کو بھی پیش کیاجاتا ہے'والعیاذ باللہ۔
(7) عورت اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ وہ بے پردہ ہوگی یا اس نے خوب میک اپ کیا ہوگا۔یا وہ گانا گارہی ہوگی یا وہ اداکاری غیرہ کررہی ہوگی۔
(8) اس طرح کے پروگراموں کے درمیان میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اور احادیث نبویہ کو پڑھاجاتا ہے اور دینی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔
(9) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ڈڑامائی تشکیل کی جاتی ہے۔۔۔ریڈیو کے"اذاعۃ القرآن الکریم" چینل سے جو دینی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں'وہ ٹیلی وژ ن کے پروگرام سے کہیں زیادہ ہیں حتیٰ کہ اس چینل سے مقامی اور بین الاقوامی نشر کی جانے والی خبریں بھی ٹیلی وژن سے زیادہ ہوتی ہیں لہذا اب سوال یہ ہے:
کیا مردوں اور عورتوں کے لیے ان پروگراموں کو دیکھنا جائز ہے؟اللہ آپ کو صحیح اور شافی جواب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی وژن سے متعلق گفتگو کے ابتدائی سات نکات میں آپ نے ایسے امور کی طرف اشارہ کیا ہے جو حرام ہیں اور ان کی حرمت کے بارے میں کسی بھی ایسے انسان کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا جو اسلامی شریعت کے مصادروماخذ کو جانتا ہے کیونکہ ان میں ایسے مفاسد ہیں جو دین 'اخلاق'امن اور معاشرہ کے لیے بہت سے مفاسد پر مبنی ہیں ۔ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ذمہ دار لوگوں کو ان سے اجتناب کرنے اور ان سے دور ہونے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ خیروبھلائی حاصل ہو اور شر اور فتنہ کے اسباب سے دور رہا جاسکے۔ان پروگراموں کے درمیان قرآن مجید اور دینی پروگراموں کو پیش کرنا اجماع ضدین ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا اسباب کی وجہ سے ٹی وی رکھنا حرام ہے کیونکہ حرام کا مشاہدہ کرنا بھی حرام ہے 'اگر کوئی شخص ٹی۔وی لے اور اسے معلوم ہو یاظن غالب ہو کہ اس کے لیے مذکورہ بالا پروگراموں کو اجتناب ممکن نہ ہوگا تو اس نے گویا حرام کام کے ارتکاب پر اصرار کیا۔اس طرح اگر کوئی اپنے اہل خانہ اور ایسے بچوں کے لیے خریدے جو اس سے نہ بچ سکیں'اور خواہ وہ خود نہ بھی دیکھے تو اس نے بھی گویا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے حرام کام کے بارے میں تعاون کیا ہے اور یہ اس کی وہ بری تربیت ہے' جس کے بارے میں روز قیامت اس کا محاسبہ ہوگا۔اگر کسی بھی شخص نے ٹی۔وی حاصل تو نہیں کیا مگر وہ اسے دیکھتا ہے تو اس کی تین قسمیں ہیں:
(1)ایسے پروگرام دیکھنا جو دین ودنیا کے اعتبار سے منفعت بخش ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ٹی۔وی دیکھنے والا کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرے مثلاً اگر عورت کسی اناؤنسر یا پروڈیوسر وغیرہ کودیکھ کر لطف اندوز ہوتو دیکھنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ فتنہ ہے۔
(2) ایسے پروگرام کو دیکھنا جو دین کے اعتبار سے نقصان دہ ہو'حرام ہے کیونکہ ہر مومن کے لیے واجب ہے کہ اپنے دین کو ہر ایسی چیز سے بچائے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو
(3) جس پروگرام میں نہ کوئی نفع ہو اور نہ نقصان تو اسے دیکھنا ایک لغو کام ہے اور کسی عقل مند مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بے معنی پروگرام دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کرے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے اور انہیں دنیا وآخرت میں برائی سے بچائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب