سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(491) ضرورت کے بغیر تمام زندہ چیزوں کی تصویریں حرام ہیں۔

  • 10863
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1420

سوال

(491) ضرورت کے بغیر تمام زندہ چیزوں کی تصویریں حرام ہیں۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمیں بعض  لوگوں نے  یہ بتایا ہے کہ تصویریں حرام ہیں اور فرشتے  اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس  تصویریں ہوں ،کیا بات  صحیح ہے؟ کیا ان حرام تصویروں  سے مقصود  ایسی تصویریں ہیں  جو انسانوں اور حیوانوں کی طرح  مجسم  ہوں یا  یہ حکم  ان تمام تصویروں  کے لیے  ہے جو شناختی کارڈ اور کرنسی  نوٹوں  وغیرہ  پر بھی بنی ہوتی ہیں۔اگر  یہ تمام تصویریں حرام ہیں تو پھر  راہنمائی فرمائیں  کہ  گھروں  کو تصویروں  سے کس  طرح  پاک  کیا جاسکتا  ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں تمام زندوں  کی تصویریں  خواہ آدمی  ہوں یا حیوان  حرام ہیں اور تصویریں  خواہ  جسم  صورت میں ہوں'یا نقش نگار  کی صورت میں ہوں  یا انہیں کپڑوں  پر بنایا  گیا ہو یا وہ شمسی  تصویریں ہوں ' سب حرام  ہیں اور صحیح  احادیث  کے عموم  کے پیش نظر فرشتے  ان گھروں  میں داخل  نہیں ہوتے  جن میں تصویریں  ہوں ۔ان میں  سے صرف  ان تصویروں  کی رخصت  ہے'جن کی ضرورت  ہو مثلاً مجرم  اور مشکوک  لوگوں کی تصویریں  تاکہ انہیں پہنچا جاسکے 'اسی  طرح پاسپورٹ اور شناختی  کارڈز  کی تصؤیروں کی بھی  رخصت  ہے اور امید  ہے  کہ یہ اوراس طرح  کی تصویریں جنہیں ضرورت  وحفاظت  کے  پیش نظر  رکھا جاتا  ہے"گھروں  میں فرشتوں  کے داخلے  سے مانع  نہیں ہونگی والله المستعان۔اسی طرح  وہ تصویریں جو بستروں  اور تکیوں  پر بنی  ہوں اور  انہیں پامال  کیا جاتا  ہو'مستثنیٰ  ہیں۔تصویروں کی حرمت  کے بارے  میں جو احادیث  وارد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے 'جس میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

((ان اصحاب  هذه  الصور يعذبون  يوم القيامةّ يقال  لهم :احيوا ماخلفتم ) (صحيح البخاري ‘اللباس  ‘باب من كره القعود  علي الصور  ‘ ح:٥٩٥٧)

’’ان تصویروں والوں کو قیامت  کے دن عذاب  دیاجائے گا اور کیا جائے گا کہ اسے زندہ  کرو'جسے تم نے پیدا کیا تھا۔‘‘

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ  نبی ﷺ نے سود  کھانے  والے، کھلانے والے  اور مصور  پر لعنت  فرمائی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص381

محدث فتویٰ

تبصرے