السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک ادارے کا مدیر ہوں۔ کچھ لوگ اپنے ،معاملات ختم ہونے پر مجھے بعض تحائف دے دیتے ہیں کیونکہ وہ میری ادارت سے مستغنی نہیں ہوسکتے کیونکہ انہیں پھر بھی کبھی نہ کبھی اس ادارے کی طرف رجوع کرنا پڑے گا تو کیا میں انہیں حسن نیت پر محمول کرتے ہوئے قبول کرلوں یا یہ بھی رشوت اور حرام شمار ہوں گے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ ان تحائف کو قبول نہ کریں کیونکہ یہ رشوت کے حکم میں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان تحائف کے لالچ میں یا ان سے حیا کی وجہ آپ اس کے معاملات کو دوسروں سے مقدم قرار دیں ۔سنت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے اس قسم کے تحائف قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔
آپ اور آپ جیسے لوگوں پرواجب ہے کہ وہ اپنےکام میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور تمام لوگوں کی ضروریات کو پورا کریں 'جو پہلے آئے اس کے کام کو پہلے کریں یا جو کام زیادہ اہم ہو اسے زیاد ہ اہمیت دیں۔اپنی خواہش نفس ' دوستی اور رشتہ داری کی وجہ سے نہ تو کسی پر ظلم کریں اور نہ اس کے معاملہ کو مؤخر کریں تاکہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل ہوسکے :
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها... ﴿٥٨﴾... سورةالنساء
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو ۔‘‘
اور کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف کا تذ کرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذينَ هُم لِأَمـٰنـٰتِهِم وَعَهدِهِم رٰعونَ ﴿٣٢﴾... سورةالمعارج
’’اور جو امانتیں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب