سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(289) کیا تحیۃ المسجد یا سنتوں میں بھی دعائے استخارہ پڑھی جا سکتی ہے؟

  • 1084
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 1145

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز استخارہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا تحیۃ المسجد یا سنتوں میں بھی دعائے استخارہ پڑھی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

استخارہ سنت اس وقت ہے جب کوئی انسان کسی کام کا ارادہ کرے اور اس کے لیے یہ واضح نہ ہو کہ اس کام کا کرنا اس کے لیے بہتر ہے یا نہ کرنا بہترہے۔ اور جب یہ بات بالکل واضح ہو کہ اس کام کا کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا بہتر ہے تو ایسی صورت میں استخارہ کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بہت سے کام سر انجام دیتے تھے اور انہیں باضابطہ پروگرام کے مطابق انجام دیتے تھے لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ ان کے لیے استخارہ بھی فرماتے ہوں، مثلاً: اگر انسان نماز یا زکوٰۃ ادا کرنے کا ارادہ کرے یا حرام امور کو ترک کرنے کا ارادہ کرے یا کھانے، پینے اور سونے کا ارادہ کرے تو اس طرح کے تمام امور کے لیے استخارہ کی ضرورت نہیں ہے۔

تحیۃ المسجد میں دعائے استخارہ نہیں پڑھی جا سکتی۔ اسی طرح پہلے سے نیت کیے بغیر سنت رواتبہ میں بھی دعائے استخارہ نہیں پڑھی جا سکتی کیونکہ حدیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ استخارہ کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھی جائے اور اگر نیت کے بغیر دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں تو اس سے فرمان نبوی کی تعمیل نہیں ہوگی۔ اگر کوئی شخص تحیۃ المسجد یا سنن مؤکدہ کے ادا کرنے سے پہلے استخارہ کی نیت کر لے اور پھر دعائے استخارہ پڑھ لے تو حدیث کے ان ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ استخارہ صحیح ہوگا۔ ارشاد نبوی ہے:

«فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ» (صحيح البخاري، الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارة، ح: ۶۳۸۲، التهجد، باب ماجاء فی التطوع مثنی مثنی، ح:۱۱۶۲)

’’وہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے۔‘‘

اس میں فرض کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور کسی نماز کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس طرح استخارہ صحیح نہ ہو کیونکہ حدیث کے الفاظ ’’جب ارادہ کرے تو (دو رکعت) نماز پڑھے‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ ان دو رکعتوں کا استخارہ کے سوا اور کوئی سبب نہیں، لہٰذا میرے نزدیک افضل یہی ہے کہ استخارہ کے لیے دو مستقل رکعتیں پڑھی جائیں کیونکہ یہ احتمال بھی ہے جس کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اور فرض نماز کے بطور خاص استثناء سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ وہ نفل نماز پڑھے گویا آپ نے فرمایا ہی یہ ہے کہ وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ304

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ