سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(463) امتحانات میں دھوکا دینے کے بارے شرعی حکم

  • 10828
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2705

سوال

(463) امتحانات میں دھوکا دینے کے بارے شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امتحانات  میں دھوکا دینے  کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب تو خود اس سوال  ہی میں موجود  ہے ۔کیونکہ  سائل نے  سوال  یہ کیا  ہے  کہ امتحان  میں دھوکا دینے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟  یعنی  سائل  اس کے دھوکا  ہونے کا  خود اقرار کررہا ہے  اور دھوکا دینے  کے بارے میں حکم  شریعت  بالکل واضح اور ظاہر ہے  کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

(من غشنا فليس منا) (صحيح مسلم  ّالايمان  ‘باب قول النبي صلي الله عليه وسلم  من غشنا فليس منا ‘ ح:١-١)’

 ’’جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھے  کہ امتحان  میں دھوکے کے نقصانا ت بہت زیادہ ہیں۔

جو ان مالی نقصانات  سے کہیں زیادہ  ہیں، جن کے بارے  میں یہ حدیث  وارد  ہوئی ہے  کیونکہ اس  میں تو در حقیقت  پوری امت  ہی کی خیانت ہے  ۔ جو شخص  کسی دھوکا اور فریب سے امتحان  میں پاس ہوتا ہے 'تو اس نے اپنے آپ  کو اس مقام  ومرتبہ کا اہل  قرار دے لیا' جس  کا وہ اس  امتحان  پاس  کرنے کی وجہ سےمستحق  ہے حالانکہ  حقیقت میں وہ اس کا مستحق  نہیں  ہے  تو اس طرح  اس ادارے میں جس  میں یہ کام  کرے گا سارے معاشرہ  کے لیے نقصان  دہ ہے ۔ دوسرا  اس دھوکے  کا  ثقافتی  اعتبار  سے بھی نقصان  ہے اور وہ یہ ہے کہ  امت  کے تعلیم  یافتہ افراد  اگر  دھوکہ  فریب  سے امتحان  پاس کرکے آتے ہوں  تو ان کی علمی استعداد  بہت پست  ہوگی۔ وہ قدم  قدم  پر دوسرے  کے محتاج  ہوں گے۔ جو شخص جعلی طریقے  سے طریقے  سے امتحان  پاس کر کے آیا ہو' وہ تعلیم  وثقافت  میں طلبہ  کی صحیح راہنمائی  کس طرح  کرسکے  گا 'اس طرح  کی جعل سازی  کرنے والا حکومت کو بھی  دھوکا دیتا ہے ۔ حکومت  اس طرح کی  جعل سازی اور دھوکا بازی  کو قطعاً پسند  نہیں کرتی ۔ یہی وجہ ہے کہ  امتحانات  میں اس کے سدباب  کے لیے بہت  سے نگرانوں  کو متعین  کیا جاتا ہے  لہذا دھوکہ وفریب  کو کام  لانے  والا  حکومتی  نظام  کی خلاف  ورزی حکومت  کی بھی خیانت  کرتا ہے  اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع  کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَخونُوا اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ وَتَخونوا أَمـٰنـٰتِكُم وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٧ وَاعلَموا أَنَّما أَمو‌ٰلُكُم وَأَولـٰدُكُم فِتنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجرٌ‌ عَظيمٌ ﴿٢٨﴾... سورةالانفال

’’اے ایمان والو! نہ تو اللہ اور اس کے رسول کی  امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی  امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہوا ور جان لو کہ  تمہارا مال اور اولاد  بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ  اللہ کے پاس  ( نیکیوں  کا ) بڑا ثواب ہے۔‘‘

اس دھوکا دہی میں مخمون کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں  ہے ۔ یعنی اگر کوئی  تفسیر  کے مضمون  میں دھوکا کرے  یا انگریزی  کے مضمون  میں  کامیابی  پر ہی طالب علم  کے ایک  تعلیمی  مرحلہ  سے دوسرے مرحلہ میں  جانے  کا انحصار  ہے اور پھر  اسی کامیابی کی بنیاد  پر طالب علم کو  ڈگری ملتی ہے لہذا ان میں سے  ہر  مضمون میں جعل سازی  دھوکا حرام ہے  لہذا میں اپنے  عزیز  طلبہ اور نوجوانوں  کے لیے اس بات  کو قطعاً پسند نہیں کرتا کہ وہ اس حد  تک پستی میں  گرجائیں ،میں امید کرتا ہوں  کہ وہ محنت  وکوشش اور لیاقت  وقابلیت  کے ساتھ بلند  مراتب  حاصل  کرنے کی کوشش کریں گے  کہ اس میں دنیا وآخرت کی  بہتری  وبھلائی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص354

محدث فتویٰ

تبصرے