السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ریاض کے ایک کالج کا طالب علم ہوں ۔میں نے دیکھا کہ بعض طلبہ امتحانات کے وقت بعض مضامین مثلاً انگریزی وغیرہ میں نقل کرتے ہیں اور جب اس کے بارے میں میں نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے جواب دیا کہ انگریزی وغیرہ میں نقل کرتے ہیں اور جب اس کے بارے میں میں نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے جواب دیا کہ انگریزی کے مضمون میں نقل مارنا حرام نہیں ہے ۔بعض علامء نے اس کا فتویٰ یہ دیا ہے ۔امید ہے آپ اس فعل اوراس فتویٰ کے بارے میں راہنمائی فرمائیں گے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لاریب یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے:
(من غشنا فليس منا) (صحيح مسلم ّالايمان ‘باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من غشنا فليس منا ‘ ح:١-١)’
’’جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
یہ فرمان نبوی عام ہے لہذا دھوکا دینا جائز نہیں ہے خواہ اس کاتعلق معاملات سے ہو یا امتحانات سے اور امتحان بھی خواہ انگریزی کے مضمون کا ہو'لہذا اس حدیث اور اس کے ہم معنی احادیث کے عموم کے پیش نظر طلبہ وطالبات کے لیے کسی بھی مضمون میں سھوکا جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب