السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض ملازمین اور کارکن بہادری ودلیری کے ساتھ اپنا کام نہیں کرتے ۔ کئی لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزرجاتا ہے اور وہ نیکی کا حکم نہیں دیتے 'نہ برائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے کام پر بھی بہت تاخیر سے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں سربراہ کی طرف سے اس کی اجازت ہے ' تو سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں دین کا تقاضہ کیا ہے ؟ فتویٰ عطا فرمائیں۔جزاكم الله خيراً
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاً: ہر مسلمان مردوعورت کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی جو بات بھی سنے 'اسے آگے پہنچائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
((نضرا الله امرا سمع مقالتي فععاها ثم اداها الي من لم يسمعها))( مسند احمد :٤/٨-)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش وخرم رکھے ' جو میری بات سنے 'اسے یادرکھے اور پھر اسے اس تک پہنچادے 'جس نے اسے نہ سنا ہو۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
(بلغوا عني الآية)) (صحيح البخاري ‘احاديث الانبياء ‘باب ماذكر عن بني اسرائيل ‘ ح:٣٤٦١)
’’میری طرف سے (آگے) پہنچاؤ خواہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘
آپ ﷺ جب لوگوں کو خطبہ ارشاد فرماتےاور وعظ ونصیحت کرتے تو یہ ضرور فرماتے:
((فليبلغ الشاهد الغائب ‘فرب مبلغ اوعيٰ من سامع ))(صحيح البخاري ‘الحج ‘باب الخطبه ايام مني ‘ ح:١٧٤١ وصحيح مسلم ‘الحج ‘ باب تحريم مكة وتحريم صيدها ___الخ ‘ح : ١٣٥٤ مختصراً
’’جو موجود ہے وہ اس تک پہنچادے جو موجود نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ جن تک بات پہنچائی جائے وہ سننے والے کی نسبت اسے زیادی یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
میں تم سب کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ خیر وبھلائی کی جو بات سنو تو اسے بصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ آگے پہنچاؤ۔ یعنی جو شخص بھی علم کی بات سنے تو اسے چاہیے کہ یاد رکھے 'اور اپنے اہل خانہ 'اپنے بھائیوں اور اپنے دوستوں تک اسے پہنچائے اور اس بات کا پورا پورا خیال رکھے کہ اسے صحیح طور پر یاد رکھے اور پھر بلاکم ودست آگے پہنچائے اور اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ نہ کرے اور نہ کوئی ایسی بات بیان کرے جو اسے صحیح طور پر یاد نہ ہو کیونکہ صرف اسی صورت میں اس کا حق کی وصیت کرنےوالوں اور نیکی کی دعوت کرنےوالوں میں شمار ہوگا،
وہ ملازمین جو اپنے کام سر انجام نہیں دیتے یا انہیں سر انجام دینے میں ہمدردی وخیر خواہی ملحوظ نہیں رکھتے تو یہ تم نے سن ہی لیا ہے کہ ایمان کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امانت کو ادا کیا جائے اورا س کا پورا پورا خیال رکھا جائے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها ...﴿٥٨﴾... سورةالنساء
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو۔‘‘
امانت ایمان کی خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی ہے ۔ جب کہ خیانت نفاق کی خرابیوں میں سے ایک بہت بڑی خرابی ہے ۔اللہ تاعلیٰ نے اپنے مومن بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذينَ هُم لِأَمـٰنـٰتِهِم وَعَهدِهِم رٰعونَ ﴿٣٢﴾... سورةالمعارج
’’اور ’’وہ‘‘وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے اقراروں کے پاس کرتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَخونُوا اللَّهَ وَالرَّسولَ وَتَخونوا أَمـٰنـٰتِكُم وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٧﴾... سورة الانفال
’’اے ایمان والو! نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خٰیانت کیا کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں ) کو جانتے ہو۔‘‘
لہذا ملازم کو چاہیے کہ وہ صدق واخلاص'اہتمام اور وقت کی پابندی کے ساتھ امانت کو ادا کرے 'اپنی کمائی کو پاک کرے 'اپنے رب کو راضی کرے اورا س سلسلہ میں حکومت 'کمپنی یا جس ادارے میں بھی وہ کام کررہا ہے'اس کی ہمدردی وخیرخواہی کو ملحوظ رکھے۔ہر ملازم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور حد درجہ اہتمام اور ہمدردی وخیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ امانت کو ادا کرے 'اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرے اور ارشاد باری تعالیٰ : (ان الله يامركم ان تؤدوالامنت الي اهلها) پر عمل کرے ۔منافقوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ امانتوں میں خیانت کرتے ہیں جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
(آية المنافق ثلاث: اذا حدث كذب‘واذا وعد اخلف ّواذا ائتمن خان ))- (صحيح البخاري ‘الايمان ‘باب علامات المنافق ‘ ح: ٣٣ وصحيح مسلم ‘الايمان ‘باب خصال المنافق ‘ ح: ٥٩)
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں (ا) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے توا س میں خیانت کرے۔‘‘
کسی مسلمان کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ منافقوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے بلکہ واجب ہے کہ وہ ان کے اطوار سے دور رہے 'امانت کی حفاظت کرے'اپنے کام کو پوری توجہ کے ساتھ سرانجام دے' وقت کی پابندی کرے خواہ اس کے ادارے کا سربراہ سستی کرے اور اسے پابندی کرنے کا نہ بھی کہے ۔اسے یہ نہیں چاہیے کہ کام چھوڑ کر بیٹھ رہے یا کام میں سستی کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اس قدر محنت سے کام کرے حتی کہ کام کرنے اور امانت کےادا کرنے میں اپنے ادارے کے سربراہ سے بھی ثابت ہو اور دوسروں کے لیے بھی وہ ایک اچھا نمونہ بن جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب