سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(436) اوور ٹائم کی اجرت

  • 10801
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 962

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک کمپنی  اپنے بجٹ کا ایک خطیر  حصہ اس لیے  رکھتی ہے  تاکہ ملازمین کو اوور ٹایم کی اجرت ادا کی جاسکے 'ملازمین بھی دستخط کرکے ہرسال باری باری اوور ٹائم  کی اجرت وصول  کرلیتے ہیں حالانکہ انہوں نے قطعاً اوور ٹائم  نہیں لگایا ہوتا تو کیا اس طرح  یہ مال  وصول  کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کمپنی  کے ملازمین  کو چاہیے کہ  وہ اس  مال کو ناجائز  طور پر  حاصل  نہ کریں بلکہ جو مال بچا ہواسے  خزانہ  میں  جمع کرادیں اور ان لوگوں کو نہ دیں جنہوں نے  کام کیا ہی نہیں  خواہ  وہ آئندہ سال  یا آنے والے سالوں میں بھی اگر زائد از وقت کام نہ کریں تو انہیں یہ مال بالکل  نہ دیں کیونکہ  وہ اس مال کے امین  قرار دیے گئے  ہیں  اور امین کو چاہیے کہ  کہ وہ اس مال کے بارے میں پوری پوری امانت  ودیانت  کا ثبوت  دے، جو اس کے پاس  بطور امانت ہو اور اگر مقررہ وقت  سے زائد  کام کی ضرورت  ہو تو پھر ان کے کام  کے بقدر  جس اجرت کے وہ مستحق   ہوں وہ انہیں ادا کردی جائے اور اگر ملازمین  اسی نظم و نسق  کے مطابق  کام کریں  اور کمپنی  از خود  انہیں کچھ  دینا چاہے، تو اسے وہ  لے سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے فرمایا تھا:

(وماجاءك  من هذا الامل  شئي وانت  غير  مشرف  ولاسائل  فخذوه ‘ومالا فلا تتبعه  نفسك )) (صحيح البخاري ‘الزكاة ‘باب من اعطاه الله شيئا من غير مسالة ____الخ ‘ ح:١٤٧٣ وصحيح مسلم ‘الزكاة ّباب جواز الاخذ بغير  سؤال  ولا تطلع ‘ ح: ١-٤٥ واللفظ له)

’’تمہارے پاس جو مال اس طرح آئے  کہ تم اس کے بارے میں حریص ولالچی نہ ہو  اور نہ تم نےاس کے بارے میں سوال کیا ہو تو اسے لے لو اور جو اس طرح نہ ہو تو اس کا پیچھا نہ کرو۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص336

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ