السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک بہت زیادہ سخت کام کرتا تھا 'جسے میرے لیے جاری رکھنا نا ممکن تھا لہذا میں نے ایک آسان کام تلاش کرنا چاہا تو وہ مجھے سگریٹ بنانے والی فیکٹری میں ملا ہے۔اب چند ماہ سے اس فیکٹری میں کام کررہاہوں لیکن میں خود سگریٹ استعمال نہیں کرتا 'سوال یہ ہے کہ اس کام کی وجہ سے مجھے جو اجرت ملتی ہے کیاوہ حلال ہے یا حرام 'ٌیاد رہے میں اپنے کام میں بحمدللہ مخلص ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس فیکٹری میں آپ لے لیے کام کرنا حلال نہیں ہے ۔ جو سگریٹ بنانا اور اس کی خرید وفروخت کرنا حرام ہے اور اس فیکٹری میں کام کرنا ایک حرام کام میں تعاون کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ...﴿٢﴾... سورةالمائدة
(اور دیکھو!) تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کیا کرو۔‘‘
اس فیکٹری میں آپ کا کام کرنااور اس کی اجرت لینا حرام ہے لہذا آپ کو توبہ کرنی چاہیے اور اس فیکٹری میں کام چھوڑدینا چاہیے'حلال کی تھوڑی تنکوا حرام کی زیادہ تنخواہ سے بہتر ہے کیونکہانسان کی کمائی اگر حرام ہو تو اللہ توتعالیٰ اسے برکت سے محروم کردیتا ہے 'اگر صدقہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا اور اگرمرنے کے بعد اسے اپنے پیچھے چھوڑجائے تو وارثوں کے لیے اگرچہ یہ مال غنیمت ہوگا لیکن اسے اس کا گناہ ہوگا ،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
(ان الله طيب لايقبل الا طيبا وان الله امر المومنين بما امر به المرسلين فقال : (ياايهاالرسل كلوا من طيبت واعملوا صلحاً اني بما تعملون عليم (٥١) المومنون ٢٣/٥١)
وقال (ياايها الذين ءامنوا كلوا من طيبت ما رزقنكم )(البقرة ٢/١٧٢) ثم ذكر الرجل ‘يطيل السفر‘اشعث اغبر ‘يمده يديه الي السماء‘ يارب !يارب!ومطعمه حرام ومشربه حرام ‘وملبسه حرام ‘وغذي بالحرام فاني يستجاب لذلك ؟) (صحيح مسلم ‘الزكاة‘باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها ‘ ح: ١-١٥)
’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک مال ہی کو قبول فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بھی وہی حکم دیا ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیاتھا کہ "اے پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل نیک کرو، جو عمل تم کرتے ہو بلاشبہ میں ان سے واقف ہوں۔‘‘ اور فرمایا : ’’اے اہل ایمان ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہے انہیں کھاؤ۔‘‘ پھرنبیﷺ نے ایک ایسے شخص کا بھی ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال اور غبار آلودہے، آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یارب! یارب! مگر اس کا کھانا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اوار حرام ہی سے اس کی پرورش پائی ہے تونبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔‘‘
قبولیت دعا کے اسباب کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے اس کی دعا کو قبولیت سے محروم قرار دیا تو وہ محض اس وجہ سے کہ اس کا کھانا، اس کا لباس اور اس کا پینا حرام ہے اور مال حرام سے اس کی پرورش پائی ہے لہذا انسان کے لیے واجب ہے کہ وہ مال حرام سے بچے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بـٰلِغُ أَمرِهِ ۚ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىءٍ قَدرًا ﴿٣﴾... سورةالطلاق
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے لیے (رنج ومحن سے)مخلصی کی صورت پیدا کردے گا اور اس کوایسی جگہ سے رزق دےگا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا۔اللہ اپنے کام کو(جو وہ کرنا چاہتاہے) پورا کردیتا ہے 'اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورة الطلاق
’’اور جو کوئی اللہ ست ڈرے گا تو اللہ اس کےکام میں آسانی پیدا کردے گا۔‘‘
لہذا اے بھائی آپ کے لیے میری نصیحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں'اس فیکٹری میں کام کرنا چھوڑدیں اور رزق حلال تلاش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب