السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ ۗ...﴿١٠٨﴾... سورةالانعام
’’اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں'ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بے سمجھے برا(نہ) کہہ بیٹھیں۔‘‘
کیا اس آیت سے یہ مفہوم اخذکیا جاسکتا ہےکہ داعی کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اس وقت سنت کو ترک کردے جب اس پر عمل کرنے کی وجہ سے سنت کو گالی دی جاتی ہو مثلاً چھوٹے کپڑوں کے پہننے کی سنت کو ترک کرکے لمبے کپڑے (جو ٹخنوں سے نیچے ہوں ) پہننا شروع کردے وغیرہ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنت پر عمل کرنے میں دودسروں کے لیے گالی نہیں ہے'لہذامذکورہ بالا آیت اس پر منطبق نہیں ہوتی'لیکن ترک سنت کی دلیل ایک دوسری سنت ہی سے لی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ نبی ﷺنے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر بیت اللہ شریف کو ازسر نو تعمیر کرنے کے لیے اپنے ارادے کو ترک فرمادیا تھا کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں کیونکہ انہوں نے کفر کو ابھی نیا نیا چھوڑا تھا۔
اگر کوئی سنت ایسی ہو کہ عوام اسے نادر یا عجیب وغریب تصور کرتے ہوں اوراس سنت پر عمل کرنے والے انسان پر وہ ایسے الزام لگاتے ہوں'جن سے وہ پاک ہو تو پھر زیادہ بہتر اور افضل بات یہ ہے کہ اس سنت پر عمل کرنے سے پہلے انسان گفتگو کے ذریعے سے سمجھا کر فضا ہموار کرے۔ یعنی مجلسوں میں یا اسے جہاں بھی مناسب ہوقع ملے لوگوں کے سامنے حق بات کو واضح کرے تاکہ جب خود اس سنت پر عمل کرے تو لوگوں نے جان پہچان لیا ہو کہ یہ سنت ہے۔مجھے معلوم ہے کہ ایک آدمی کے عمل کرنے کی وجہ سے لوگ سنت کو ناپسند کرتے نہیں کرتے مثلاً اگر کوئی ایسی علمی شخصیت جو عوام میں بھی معتبر اور معروف ہو'اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے اونچا رکھے تو لوگ اس عمل کو نامناسب خیال نہیں کریں گے'لیکن اس وقت اسے ضرور نامناسب خیال کریں گے جب کسی ایسے شخص کو یہ عمل کرتے ہوئے دیکھیں گے جس کو یہ ثقہ عالم خیال نہ کرتے ہوں'جب صؤرت حال اس طرح ہوتو پھر افضل یہ ہے کہ ہم عوام کوتدریحاً سنت پر عمل کرنے کی دعوت دیں تاکہ جس فعل کو وہ ناپسندسمجھتے ہوں 'اس کے بارے میں انہیں علم حاصل ہوجائے کہ یہ عمل ناپسندیدہ نہیں بلکہ یہ تو سنت ہے۔ خالی دلوں پر جب علم کی دستک ہوگی تو وہ اسے یقیناً قبول کرلیں گے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب