سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(386) اصول دعوت ناقابل تبدیلی ہیں

  • 10761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1392

سوال

(386) اصول دعوت ناقابل تبدیلی ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اسلامی  دعوت  کے اصول زمانے اور معاشرے کی تبدیلی کی وجہ سےبدل جاتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے اپنی  دعوت کا آغاز جو عقیدہ  کی اصلاح سے کیا تو کیا ہر زمانے کے داعیوں کو بھی اسی سے  اپنی دعوت  کا آغاز  کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شک  رسول اللہ ﷺ کی بعثت  سے لیکر  قیامت  تک اسلامی دعوت  کی روایات اور اصول ایک ہی  ہیں' جو زمانے کے بدل جانے  کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتے البتہ  یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ  بعض اصولوں پر کسی  کمی بیشی  کے بغیر عمل پیرا ہوں ' تو اس صورت  میں داعی  بعض ان امور کی طرف متوجہ ہوگا'جن میں یہ کوتاہی کرتے  ہوں لیکن جہاں تک اسلام کی طرف اصول  دعوت کا تعلق ہے' تو ان میں سے کبھی بھی  کوئی تبدیلی  واقع نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کو اہل یمن کی طرف  بھیجا تو فرمایا :

((فليكن اول ما تدعوهم الي ان يوحدوه الله تعاليٰ فاذا عرفوا ذلك فاخبرهم  ان الله فرض عليهم خمس صلوات في يومهم  وليلتهم  فاذا صلوا فاخبرهم  ان الله افترض عليهم زكاة في اموالهم تؤخذ من  غنيهم  فترد علي فقيرهم ) (صحيح البخاري ّالتوحيد‘ باب ماجاء في دعاء النبي  صلي الله عليه وسلم____الخّ ح:٧٣٧٢ وصحيح مسلم ‘الايمان ‘باب  الدعاء الي الشهادتين  وشرائع الاسلام ‘  ح: ١٩)

’’انہیں سب سے پہلے  یہ دعوت دو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اختیار کریں ' جب وہ  اسے پہچان لیں  تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن  رات میں ان پر پانچ نمازیں  فرض قراردی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگ جائیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال  میں زکوۃ فرض  کی ہے۔ جو ان  کے غنی سے لے کر ان کے فقیر میں تقسیم کردی جائے گی۔‘‘

یہ ہیں وہ اصول دعوت جن کی اس ترتیب کو پیش نظر رکھنا واجب ہے بشرطیکہ  ہم کافروں کو دعوت  دے رہے ہوں اور جب  ہم مسلمانوں کو دعوت  دیں اور  انہوں نے دین کے اصل اول توحید کو کسی کمی بیشی کے بغیر اختیار کرلیا ہو تو پھر ہم انہیں دوسری باتوں کی دعوت دیں گے جیسا کہ اس خدیث سے واضح ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص307

محدث فتویٰ

تبصرے