السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ جن کو ہم دینی احکام کا پابند خیال کرتے ہیں'وہ وگوں سے بہت سختی اور درشتی سے معاملہ کرتے ہیں اور ہمیشہ منقبض اور ترش رو نظر آتے ہیں 'تو ان لوگوں کے لیے آپ کی کیا نصیحت ہے؟ مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائی سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے خصوصاً جب وہ دینی احکام کی پابندی میں کوتاہی کررہا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی ﷺ کی سنت مطہرہ سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ انسان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف حکمت 'نرمی اور شائستگی کے ساتھ دعوت دے' جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ سے بھی فرمایا :
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ...﴿١٢٥﴾... سورةالنحل
’’اے پیغمبر ! لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَبِما رَحمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُم ۖ وَلَو كُنتَ فَظًّا غَليظَ القَلبِ لَانفَضّوا مِن حَولِكَ ۖ فَاعفُ عَنهُم وَاستَغفِر لَهُم ...﴿١٥٩﴾... سورةآل عمران
(اے محمدﷺ !) اللہ کی مہربانی سے تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو اور اگر تم سخت کو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کردو اور ان کے لیے (اللہ سے )مغفرت مانگو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ وہارون کو فرعون کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا :
﴿فَقولا لَهُ قَولًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَو يَخشىٰ ﴿٤٤﴾... سورة طه
’’اورا س سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرےیا ڈر جائے۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((ان الله رفيق يحب الرفق ويعطي علي الرفق مالا يعطي علي العنف )) (صحيح مسلم ‘البر والصلة‘ باب فضرح الرفق ‘ ح: ٢٥٩٣)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کے ساتھ وہ عطا فرماتا ہے جو وہ سختی کے ساتھ عطانہیں فرماتا۔‘‘
آپ جب مبلغین کو روانہ کرتے تو انہیں ہدایت فرماتے:
((يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا)) (صحيح البخاري ‘العلم ‘باب ما كا ن النبي صلي الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة ___الخ‘ ح: ٦٩ وصحيح مسلم ‘الجهاد‘باب في الامر بالتيسر وترك التنفير ‘ ح: ١٧٣٢)
’’آسانی پیدا کرو اور مشکل میں نہ ڈالو' خوشخبری سناؤ اور نفرت میں نہ دلاؤ۔‘‘
داعی کو چاہیے کہ وہ نرم ہنس مکھ اور کھلے دل کا مالک ہوتا کہ یہ بات اس شخص کو دعوت قبول کرنے کے لیے اپیل کرے'جسے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سدعوت دے رہا ہو۔ واجب ہے کہ یہ اپنے نفس کی طرف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے کیونکہ وہ جب صرف اللہ ہی کی طرف دعوت دے گا'تو اس طرح وہ مخلص بن جائے گا'اللہ تعالیٰ اس کے کام میں آسانی پیدا کردے گا اور اس کےہاتھوں اپنے جن بندوں کو چاہے گا ہدایت عطا فرمادے گا اور اگر وہ اپنے نفس کی طرف دعوت دے یعنی اس کا ارادہ یہ ہو کہ اسے فتح ونصرت حاصل ہو یا وہ اس طرح دعوت دےکہ گویا اسے اپنا دشمن سمجھ رہا ہو اور اس سے انتقام لینا چاہتا ہو تو اس طرح دعوت ناقص ہوگی اور ممکن ہے کہ برکت سے بھی محروم ہو لہذا داعی کے بھائیوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اس بات پر توجہ فرمائیں کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اس طرح دعوت دیں کہ ان کے پیش نظر مخلوق پر رحمت 'اللہ عزوجل کے دین کی تعظیم اور اس کی نصرت واعانت ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب