السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کی نظر میں اس دور میں دعوت الی اللہ کے لیےکامیاب طریقے کیا ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس دور میں کامیاب اور مفید طریقہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے' کیونکہ یہ اسباب وذرائع بہت کامیاب ہیں'یہ دودھار والے ہتھیار ہیں۔اگر ریڈیو 'صحافت اور ٹیلی ویژن وغیرہ ذرائع کو دعوت الی اللہ اور اس دین کی طرف لوگوں کی راہنمائی کے لیے استعمال کیاجائے ' جسے رسول اللہ ﷺ لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے تو یہ ایک بہت بڑی بات ہوگی۔امت کے افراد جہاں جہاں بھی ہوں گےا للہ تعالیٰ انہیں اس سے نفع پہنچائے گا بلکہ اس سے اللہ تعالی غیر مسلموں کو بھی فائدہ پہنچائے گا 'وہ بھی دین اسلام کو سمجھنے 'اس کے محاسن کو جاننے اور دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کے راستہ کو پہنچاننے لگیں گے۔
مبلغین اور مسلامن حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کے کام میں ریڈیو 'صحافت' ٹیلی ویژن اور محفلوں میں کطابت کے طریقے سے جس طرح بھی ممکن ہو مقدور بھر حصہ لیں ' جمعہ اور دیگر مواقع پر خطاب بھی دعوت الی اللہ کا ایک طریقہ ہے جو ممکن ہوں،ان سب کو استعمال کریں اور لوگوں تک دین کو تمام زبانوں میں پہنچائیں جو آج دنیا میں استعمال ہورہی ہیں تاکہ دنیا کے تمام لوگوں تک ان کی اپنی زبان میں دعوت اور نصیحت پہنچ جائے ۔اس بات کی قدرت رکھنے والے تمام علماء'مسلمان حکمران اور مبلغین پر یہ واجب ہے تاکہ دنیا کے تمام اطراف واکناف بھر میں بولی جانےوالی بولیوں میں پیغام حق کو پہنچایا جاسکے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی اس بات کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا :
﴿يـٰأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ...﴿٦٧﴾... سورة المائدة
’’اے نبی ! جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب (لوگوں کو )پہنچادو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ پرواجب تھا کہ آپ دین کو دوسرے لوگوں تک پہنچائے بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر یہ واجب تھا کہ'اسی طرح انبیاء کرام کے پیروکاروں پر بھی واجب ہے'اسی لیے تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
((بلغوا عني الاية )) (صحيح البخاري ‘احاديث الانبياء ‘باب ما ذكر عن بني اسرائيل ‘ ح:٣٤٦١)
’’میری طرف سے (آگے )پہنچاؤ خواہ ایک آہت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ جب آپ ﷺ لوگوں کو خطبہ دیتے تو ارشاد فرماتے:
((فليبلغ الشاهد الغائب ‘فرب مبلغ اوعيٰ من سامع )) (صحٰح البخاري ‘الحج ‘باب الخطبة ايام مني ه: ١٧٤١ وصحيح مسلم ّالحج ‘باب تحريم مكة وتحريم صيدها____الخ‘ ح: ١٣٥٤ مختصراً
’’جوق شخص یہاں حاضر ہے 'وہ (یہ بات) اس تک پہنچادے'جو یہاں موجود نہیں ہے' ہوسکتا ہے کہ وہ شخص جس تک بات پہنچائی جائے وہ سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے واال ہو۔‘‘
تمام امت کے لیے یہ واجب ہے کہ'خواہ وہ حکام ہو یا علماء یاتجاز یا دوسرے لوگ کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سےاس دین کو آگے پہنچائیں اور دنیا میں استعمال ہونے والی مکتلف زندہ زبانوں میں واضح اسلوب کے ساتھ لوگوں کے سامنے دین کی تشریح کریں اور احسن انداز میں اسلام کے محاسن 'حکمتوں اور فوائد کو اجاگر کریں تاکہ دین کی حقیقت کو دشمن جان جائیں اور ناواقف اور دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی پہچان جائیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب