السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پچھلے دنوں کھال سے بنے ہوئے کوٹ استعمال کرنے کے موضوع پر ہماری بہت گرما گرم گفتگو ہوئی 'کچھ بھائیوں کا خیال تھا کہ یہ کوٹ عموماً خنزیر کی کھال سے بنائے جاتے ہیں'لہذا یہ جائز نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی خنزیر کی کھال کے بنے ہوں تو پھر ان کے استعمال کے بارے میں آپکی کی کیا رائے ہے'کیا انہیں استعمال کرنا شرعاً جائز ہے؟ بعض دینی کتابوں مثلاً قرضاوی کی "الحلال والحرام" اور عبدالرحمن الجزیری کی "كتاب الفقه علي المذهب الاربعه" میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ تو کیا گیا ہے مگر اس کو واضح طورپر بیان نہیں کیا گیا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((اذا بلغ الاهاب فقد طهر)) (صحيح مسلم ‘الحيض ‘باب طهارة جلود الميتة بالدباغ ‘ ح:٣٦٦) "
’’جب کھال کوع رنگ دیا جائے توو وہ پاک ہوجاتی ہے۔‘‘
نیز آپ نے فرمایا :
((دباغ جلود الميتة طهورها )) (ابن حيان (الوارد) باب في جلود الميتة تديغ‘ ح : ١٢٣ وسنن النسائي :٧/١٧٤‘ ح:٤٢٤٩)
’’مردہ جانوروں کی کھالوں کو رنگنا انہیں پاک کرنا ہے۔‘‘
اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے کہ کیا اس حدیث کے عموم میں تمام کھالیں شامل ہیں یا اس میں بطور خاص صرف ان مردہ جانوروں کی کھالوں کا حکم بہان کیا گیا ہے جو ذبح کرنے پاک ہوجاتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ذبح کرنے سے پاک ہوجانے والے جانوروں مثلاً اونٹ 'گائے اور بکری میں سے مردہ جانوروں کی کھالوں کو جب رنگ لیا جائے تو وہ علماء کے صحیح قول کے مطابق پاک ہوجاتی ہیں اور ہر چیز میں ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔ باقی رہے خنزیر اور کتے وغیرہ وہ جانور جو ذبح کرنے سے بھی پاک نہیں ہوتے'ان کے بارے میں اہل علم میں یہ اختلاف ہے کہ کیا ان کی کھالیں رنگنے سے پاک ہوجاتی ہیں یا نہیں 'زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ ان کے استعما ل کو ترک کردیا جائے تاکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشادات پر عمل ہوسکے:
((فمن التقيٰ الشبهات استباء لدينه وعرضه )) (صحيح مسلم ‘المساقاة‘ باب اخذ الحلال وترك الشبهات ‘ ح : ١٥٩٩)
’’جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین وعزت کو بچالیا۔‘‘
اور((دع مايريبك اليٰ مالا يريبك) (جامع الترمذي‘ صفة القيامة ‘باب حديث اعقلها وتوكل ___الخ‘ ح :٢٥١٨ وسنن انسائي ح: ٥١١٤)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب