سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330) تکبر کے بغیر کپڑے لٹکانا

  • 10701
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1135

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا تکبر کے بغیر کپڑے لٹکا نا بھی حرام ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردوں کے لیے کپڑے لٹکانا حرام ہے "خواہ یہ تکبر کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے'البتہ اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو پھر  اس کی سزا زیادہ سنگین اور شدید ہے' جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی  حدیث صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة‘ولا ينظر اليهم ّولا يزكيهم ّولهم عذاب  اليم المسبل (ازاره) و2014-03-27المنان ‘والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ))(صحيح مسلم‘ الايمان ‘باب غلظ تحريم اسبال الازار المن بالعطية___الخ‘ ح : ١-٦)

’’تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ  نہ کلام فرمائے گا'نہ ان کی طرف(نظر رحمت سے)  دیکھے گا' نہ انہیں پاک کرےگا اورا ن کے لیے دردناک عذاب  ہوگا (1) کپڑے  کو لٹکانے والا (2)احسان جتلانے  والا اور(3) جھوٹی قسم کے ساتھ اپنے سودے بیچنے والا۔‘‘

یہ حدیث اگرچہ مطلق ہے لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ  کی حدیث کی وجہ سے مقید ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:

((من جر  ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة )) (صحيح البخاري ‘اللباس ‘باب من جر ازاره  من غير خيلاء‘ ح :٥٧٨٤ وصحيح مسلم  باب تحريم جر الثواب خيلاء_____‘ ح :٢-٨٥)

’’جو شخص ازراہ  تکبر کپڑا لٹکائے گا تو قیامت کے دن  اس کی طرف  ( نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘      

((مااسفل منالكعبين من الازار  فهو  في النار)) (صحيح البخاري ‘اللباس‘باب مااسفل منالكعبين من الازار  فهو  في النار‘ ح:٥٧٨٧)

’’جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا۔‘‘

 جب یہ دو مختلف  سزائیں ہیں تو پھر مطلق  کو مقید  پر محمول  کرنا ممنوع ہے کیونکہ مقید پر محمول کرنے کے قاعدہ کے لیے شرط  یہ ہے کہ دونوں  نصوص کا حکم ایک ہو اور جب حکم مختلف  ہو تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ مقید  نہیں کیا جاسکتایہی وجہ  ہے کہ آیت  تیمم کو جس میں اللہ  تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ۚ ... ﴿٦﴾... سورةالنساء

’’منہ اور ہاتھوں کا مسح ( یعنی تیمم ) کرلو۔‘‘ کو اس آیت وضو کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا جس میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَر‌افِقِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

’’منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولیا کرو۔‘‘

لہذا تیمم  کہنیوں تک نہیں  ہوگا ۔اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں امام مالک : اور کئی دیگر محدثین نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے  کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

"((ازاره المسلم الي نصف الساق ولاحرج ّاو :لا جناحّ فيما بينه  وبين  الكعبين ‘ماكان اسفل من الكعبين فهو في النار‘ومن   جر ازاره  بطراً لم ينظر  الله اليه) (سنن ابي داود اللباس باب في قدر موضع  الازار‘ح :٤-٩٣ وسنن ابن ماجه ‘ ح: ٣٥٧٣ والسنن الكبريٰ للنسائي :٥/٤٩-‘ ح:٩٧١٦ والموطا مالك  :٢/٩١٤‘٩١-)

’’مومن کا تہ بند نصف  پنڈلی  تک ہوتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔یا یہ فرمایا کہ اس میں کوئی  گناہ نہیں ۔۔۔جو نصف پنڈلی  اور دونوں ٹخنوں کے درمیان ہو اور جو ٹخنوں سے نیچے  ہو وہ جہنم کی آگ  میں ہوگا اور جس  شخص نے ازراہ تکبر  اپنا کپڑا لٹکایا 'اللہ تعالیٰ اس کی طرف  (نظر رحمت  سے) دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘

 اس حدیث میں  نبیﷺ نے دو صورتیں بیان فرمائی ہیں اور  ان  کی سزا ؤں کے مختلف  ہونے کیوجہ سے ان کا حکم بھی مختلف  بیان فرمایا ہے تو گویا یہ دو مختلف  فعل  ہیں جن کا حکم  اور سزا بھی مختلف ہے۔ اس تفصیل سے اس شخص کی غلطی  واضح  ہوجاتی ہے جو نبیﷺ کے فرمان (( مااسفل من الکعبین من الازار فھو  فی النار)) کو  فرمان نبوی ( من جر ثوبه خٰلاء لم ينظرالله اليه)) کے ساتھ مقید کرتا ہے۔جب ان بعض  لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے'جنہوں نے اپنے کپڑے  کو ٹخنوں  سے نیچے لٹکا رکھا ہوتا ہے 'تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ازراہ  تکبر  ایسا نہیں کیا تو ان سے  ہم یہ عرض  کریں گے کہ کپڑا نیچے  لٹکانے کی دوقسمیں ہیں۔ایک وسم تو وہ ہے جس میں انسان کو صرف  مخالفت کے مقام  یعنی ٹخنوں سے نیچے  کی جگہ پر عذاب  دیا جائے گا اور اس سے مراد وہ ہے جو اپنے  کپڑے کو تکبر  کے  بغیر ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت  کے دن اس شخص سے کلام نہیں فرمائے گا'نہ اس کی طرف (نظر رحمت سے )دیکھے گا 'نہ اسے پاک کریگا بلکہ اس کے یے درد ناک عذاب ہوگا اور یہ سزا اس شخص کے ؛لیے ہوگی جو اپنے  کپڑے کو ازراہ تکبر لٹکائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص258

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ