السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک بچہ ہے اور اب میری بیوی حاملہ ہے۔ میں نے اپنی والدہ کو بلایا تاکہ وہ ہمارے پاس رہے لیکن وہ اپنے ساتھ میرے بھائی کے تین بچوں کو بھی لے آئی 'جس کی وجہ سے ہمارا بجٹ بہت متاثر ہوا حتیٰ کہ مجھے قرض لینا پڑگیا ہے ۔اگر میں اپنی والدہ کی ضروریات کو تو پورا کروں مگر اپنے بھائی کے بچوں کو واپس کردوں تو کیا اس سے اپنی والدی کا نافرمان بن جاؤں گا؟ یاد رہے ! والدہ یہ چاہتی ہے کہ میں ان کے ان پوتوں کو بھی خوش رکھوں۔ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قول صحیح ہے کہ "جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا وہ نافرمان ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر آپ کا بجٹ قلیل ہے اور وہ آپ کے بھتیجوں پر خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا 'تو ان پر خرچ کرنا آپ کے لیے واجب نہیں ہے ۔آپ اس سلسلہ میں اپنی والدہ کو قائل کرسکتے ہیں'ان کے سامنے یہ بات واضح کردیں کہ اگر آپ ان پر خرچ نہ کرسکیں تو آپ معذور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا اوت اللہ تعالیٰ اس پر اسی قدر بوجھ ڈالتا ہے جس قدر اس نے اسے دیا ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس صورت حال میں آپ کی مان آپ سے ناراض ہوں گی کیونکہ اس حال میں ان کی ناراضی بلاوجہ ہے'لہذا آپ کوکوئی گناہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مذکورہ بالا قول کا تعلق ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کی طرف اس کا انتساب صحیح ہے یا نہیں؟ البتہ اس کے معنی صحیح ہیں کہ انسان جب کسی شرعی عذر کے بغیر اپنے والدین کو ناراض کرتا ہے تووہ ان کا نافرمان ہے کیونکہ والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ انہیں راضی رکھیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب