السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دعائیہ شاعری میں اس شعر کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟ کروں قربان اپنی ساری خوشیاں ’’تو اپنا غم عطا کر‘‘، دل بدل دے! اللہ سبحانہ وتعالٰی سے اس کی ’فکر‘طلب کرنے کی کیا حیثیت ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اگرتو اس شعر میں شاعر کا مخاطب اللہ تعالی کی ذات ہے ،اور اس میں خلاف شرع کوئی خفیہ مفہوم نہیں پایا جاتا تو ظاہری مفہوم کے اعتبار سے اس شعر میں کوئی قباحت نہیں ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی دعا کرے کہ اے اللہ مجھے صراط مستقیم پر چلا،مجھے آخرت کی تیاری کی توفیق دے دے۔اور آخرت (یا اللہ کو پانے کی فکر)تو شرعا مطلوب ہے ،جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ارشاد نبوی ہے۔: "مَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ"(الترمذي : 2465، صححه الألباني في "السلسلة الصحيحة" (2 / 670) جس شخص کو آخرت کا غم ہو ،اللہ اس کے دل میں غنا ڈال دیتے ہیں،اس کے معاملات کو درست کر دیتے ہیں اورر دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔اور جس کو آ خرت کی فکر ہو اللہ اس کے سامنے فقر رکھ دیتے ہیں،اس کے معاملات کو بکھیر دیتے ہیں اور اس کے پاس اتنی ہی دنیا آتی ہے جتنی اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور آخرت کی فکر کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔جس کی شریعت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |