سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) یہ ہبہ جائز ہے

  • 10674
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1104

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ کو اپنے والد کی وفات کے بعد وراثت  سے جو حصہ ملا وہ انہوں نے اپنے بھائی کو دےدیا حالانکہ ان کے اپنے آٹھ  بچے اور بچیاں ہیں' تو کیا اس طرح کا ہبہ شرعاً جائز ہے؟ ان کی وراثت میں سے ان کی اولاد کو کنا حصہ ملے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جیساکہ سائل نے پوچھا ہے اس عورت نے اپنے والد کی وراثت سے ملنے والا حصہ اپنے بھائی کو ہبہ کردیا تو کیا یہ عطیہ جائز ہے؟ ہم عرض کریں گے کہ اگر اس عورت نے اپنی صحت کی حالت میں یہ عطیہ دیا ہوتو  یہ جائز ہے کیونکہ وہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرسکتی ہے'البتہ اسے چاہیے کہ وہ اپنی  اولاد  میں سے  کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ  دے اولاد کےعلاوہ  اگر اپنے بھائی یا کسی  اور رشتہ دار کوکوئی عطیہ دینا چاہے تو اسے اس کاحق حاصل  ہے اور  اسے  اس  حق کے استعمال سے کوئی  منع نہیں کرسکتا ۔ جہاں تک  اس سوال کا تعلق ہے کہ اس کی وراثت سے ان کا کتنا حصہ ہے؟ اگر سائل کا مقصود یہ ہے کہ اس عورت کو اپنے باپ سے جو وراثت ملی ہے'اس میں ان کا کتنا حصہ ہے تو اس کا جواب یہ ہےکہ جب تک ان کی ماں بقید حیات ہے ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔البتہ اس کی وفات کے وقت حالات کے مطابق انہیں وراثت سے ضرور حصہ ملے گا'اس پر ابھی سے حکم لگانا  ممکن نہیں۔

اگر اس عورت نے اپنے  باپ کی طرف ملنے  والی وراثت اپنے بھائی کو اپنے مرض موت میں یا اس بیماری  میں جو اس کے حکم میں ہو' عطیہ کی ہے تو اس حالت میں اسے اپنے مال کےایک تہائی سے زیادہ  حصہ میں تصرف کا حق حاصل  نہیں ہے 'لہذا اگر باپ سے ملنے والی وراثت اس کے کل  کے ایک تہائی حصہ  سے کم ہو تو پھر یہ جائز ہے

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص244

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ