السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری والدہ تقریباً چھ سال قبل فوت ہوگئی تھیں' میں بچپن میں ہمیشہ ان سے لڑتی جھگڑتی اور ان سے تکرار کرتی رہتی تھی،لہذا جب وہ فوت ہوگئیں تو مجھ سے ناراض تھیں۔اب جب میں بڑی ہوگئی ہوں تو میری عقل بھی بڑی ہوگئی ہے۔لہذا مجھے اپنے طرز عمل پر ندامت ہے۔ مگر اب میں سوائے ندامت 'توبہ واستغفار اور ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا کے اور کچھ نہیں کرسکتی تو کیا اس سے اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف کرکے قیامت کے دن مجھ پر رحم فرمادے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کی طرف سے روزے بھی نہیں رکھے'تو کیا اس کی وجہ سے ہمیں گناہ ہوگا؟ کیا یہ جائز ہے کہ ہم ان کی طرف سے روزے رکھیں؟ یاد رہے کہ تھوڑا عرصہ قبل ہی ہمیں علم ہوا کہ ان کے روزے رہ گئے تھے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ کی زندگی میں نادانی وکم عقلی کے ساتھ ساتھ آپ کی عمر بھی چھوٹی تھی'لہذا اس حالت میں آپ سے جو کوتاہی ہوئی اس کے لیے آپ معذور ہیں ادراک وعقل کے بعد اب جب کہ آپ نے توبہ واستغفار کرلیا ہے تو اس سے انشاءاللہ امید ہے کہ سابقہ کوتاہی کی تلافی ہوجائے گی کیونکہ توبہ سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔اس طرح آپ ان کے لیے رحمت ومغفرت کی جو دعا کرتی ہے اور ان کے طرف سے صدقہ کرتی ہیں تو اس سے بھی اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں کو معاف فرمادے گا۔آپ کی والدہ اپنی بیماری کے ایام میں جو روزے نہ رکھ سکیں اور نہ پھر انہیں قضا دینے کی مہلت ملی تو اس سلسلہ میں وہ معذور ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب