سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(304) آدمی کا نماز کے لیے جانا اور بچوں کا گھر میں رہ جانا

  • 10661
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1301

سوال

(304) آدمی کا نماز کے لیے جانا اور بچوں کا گھر میں رہ جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا یہ جائز ہے کہ  آدمی خود تو نماز کے لیے مسجد میں چلا جائے مگر اس کے بچے  گھر میں  رہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آدمی کیلئے یہ واجب ہے کہ  وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت بجا لائے' جو درج ذیل آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَ‌ةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَ‌هُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَر‌ونَ ﴿٦﴾... سورةالتحريم

’’اے مومنو! اپنے آپ کو  اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم ) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت  مزاج  فرشتے (مقرر) ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو ھخم ان کو ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘

ہر آدمی کے لیے یہ واجب ہےکہ وہ اپنے اہل وعیال کو بھی نماز کا حکم دے 'جیساکہ نبی ﷺ نے اس  کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:

((مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع  سنين  واضربوهم عليها وهم ابناء عشر  سنين وفرقوا بينهم في المضاجع)) (سنن ابي داؤد‘الصلاة‘ باب متي  يؤمر  الغلام بالصلاةّ ح: ٤٩-)

’’اپنے بیتوں کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوں اور اگر وہ دس سال  کے ہوں (اور نماز نہ پڑھیں تو(انہیں مارو'(نیز اس عمر میں)ان کے بستر الگ الگ کردو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے عربوں کے باپ حضرت اسماعیل علیہ السلام  کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنے  گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے  اور وہ  اپنے رب کے ہاں انتہائی پسندیدہ   تھے ۔ کسی آدمی  کے لیے  یہ جائز نہیں ہے کہ  وہ اپنے  کو  سوتا رہنے دے  اور انہیں  نماز کے لیے بیدار نہ کرے(بلکہ خود بھی سستی میں) ان کے پیچھے  لگ جائے  اور پھر  بیدار کرنے پر ہی اکتفاء  نہ کرے  بلکہ جروری ہے کہ انہیں اپنے ساتھ نماز کےلیے لے کرجائے' کیونکہ بچے بیدار  ہونے کے بعد بسااوقات پھر سوجاتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق  ہے کہ وہ خود تو نماز  کے لیے چلاجائے مگر بچے گھر ہی میں رہیں'اگر نماز کے فوت ہوجانے کا خدشہ  ہو اور وہ اس بات کا خواہش  مند بھی ہو کہ بچوں کو بیدار  کرے اور انہیں اپنے ساتھ لےجائے تووہ خود چلاجائے اور پھر ان کے پاس واپس آجائے اور اگر وہ سست ہو اور نماز سے واپسی کے بعد انہیں اٹھاتا ہو اور محض ایک دو مرتبہ  کہنے  کے بعد  خود ہی نماز کے لیے چلا جاتا ہو اور کہتا ہے کہ مجھے ڈر  ہے کہ اگر میں زیادہ دیر رکا رہا تو میری نماز بھی  فوت ہوجائے گی۔بلاشبہ یہ اس  شخص کی کوتاہی ہے کیونکہ اس پر واجب ہے کہ  حسب حال انہیں بیدار کرے ۔اگر وہ بیدار  ہونے میں سست ہوں تو انہیں جلد بیدار کرے اور اگر وہ سست نہ ہوں  توپھر ان کے حسب حال انہیں بیدار کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص237

محدث فتویٰ

تبصرے