سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(298) جس نے کسی دنیوی مقصد کی وجہ سے ازراہ جہالت۔۔۔

  • 10655
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1203

سوال

(298) جس نے کسی دنیوی مقصد کی وجہ سے ازراہ جہالت۔۔۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے  کسی دنیوی مصلحت کی وجہ سے  ازراہ جہالت  اپنے باپ کا نام بدل دیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ  کسی دنیوی  مصلحت  کی وجہ سے  اپنے ماں باپ  کے نام کو تبدیل  کرے ' کیونکہ  جس کو  اس نے مصلحت  سمجھا  ہے یا تو یہ اس کیے  لیےہوگی  کہ جس  کی طرف وہ انتساب  کررہا ہے'اس سے  وہ دنیوی  وجاہت  حاصل  کرے اور اپنے باپ کی طرف انتساب سے دست کش ہوجائےاور یہ کبیرہ گناہ ہے' کیونکہ اس  میں جھوٹ بھی ہے اور  باپ کو حقیر سمجھنا بھی ' کیونکہ یہ اس کی طرف انتساب ست اعراض کررہا ہےیا اس کا اس سے مقصد مال کمانا ہوگا وراثت کے ذریعہ  یا حکومت  کے ذریعہ  یا کسی اور طریقے  سے اور یہ بھی   کبیرہ گناہ ہے'کیونکہ اس میں جھوٹ'دھوکا' لوگوں سے فراڈ اور باطل طریقے  سے مال کھانا ہے اور پھر اس میں انساب  کی تبدیلی بھی ہے یا یہ بات انساب کی تبدیلی اور تلبیس کا سبب بن سکتی ہےاور  اس کے نتیجے میں یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی جن صورتوں کو حلال قراردیا ہے'وہ حرام اور حرام صورتیں حلال قرار پاجائیں۔اس طرح اموال وغیرہ میں بھی  اس طرح کی خرابی کی صورت  پیدا ہوسکتی ہے اور یہ بھی  بہت بڑی خرابی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  نبی ﷺ نے فرمایا:

(ليس  من رجل ادعيٰ لغير  ابيه  وهو يعلمه  الا كفر  بالله )) (صحيح البخاري‘المناقب ‘باب :٥ ح: ٣٥-٨ وصحيح مسلم‘الايمان ‘باب حال ايمان من قال  لاخيه المسلم : يا كفر!‘ ح :٦١ )

’’جو شخص جان بوجھ کر  اپنے آپ کو  اپنے  باپ  کے علاوہ  کسی اور  کی طرف منسوب کرے تو کافر ہے۔‘‘

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ثابت  ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((من ادعيٰ الي غير  ابيه  وهو يعلم انه غير  ابيه فالجنة حرام )) (صحٰح البخاري ‘الفرائض ‘باب من ادعي الي  غير ابيه‘ ح:٦٧٦٦ وصحيح مسلم ‘الايمان ‘باب بيان ايمان من رغب عن ابيه وهو يعلم ‘ ح :٦٣)

’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو  اپنے باپ کے علاوہ  کسی اور کی طرف  منسوب کرے تو  اس پر جنت حرام ہے۔‘‘

اور  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((لاترغبوا عن ابائكم‘ فمن رغب عن ابيه فهو كفر))   (صحٰح البخاري ‘الفرائض ‘باب من ادعي الي  غير ابيه‘ ح:٦٧٦٦ وصحيح مسلم ‘الايمان ‘باب بيان ايمان من رغب عن ابيه وهو يعلم ‘ ح :٦٢)

’’اپنے باپوں سے اعراض نہ کرو' کیونکہ جس نے  اپنے باپ سے اعراض کیا تو یہ کفر ہے۔‘‘

جو شخص اپنے آپ کو اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو رسول اللہ ﷺ نے  اسے وعید سنائی اور  اس پر سختی کی ہے حتیٰ کہ  اس پر کفر کا حکم لگایا (یعنی ایسے شخص کو کافر کیا) اور اس پر جنت  کو حرام قراردیا ہے' لہذا جس کسی نے بھی ایسا کای ہے 'اسے چاہیے کہ وہ اس سے باز  آجائے اور اپنی اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص232

محدث فتویٰ

تبصرے