السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں محکمہ فوج میں ملازم ہوں اور مجھے بہت اچھی تنخواہ ملتی ہے' جس میں سے کچھ تنخواہ میں اپنی والدہ کی خدمت میں پیشز کرتا ہوں ؛ کیونکہ ماضی میں انہوں نے مجھ پر خرچ کیا تھا مگر میں اپنے والد کو کچھ نہیں دیتا کیونکہ انہوں نے مجھ پر حتیٰ کہ میرے بچپن میں بھی کبھی کچھ خرچ نہیں کیا تھا۔کیا اس کا مجھے کوئی گناہ ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والدین سے نیکی اور بھلائی بہت اہم فریضہ ہے 'خواہ انہوں نے آپ پر بچپن میں کچھ بھی نہ خرچ نہ کیا ہو'ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ...﴿٢٣﴾... سورةالاسراء
’’اور تمہارے پروردگار نے یہ فیصلہ کیا کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرتے رہو۔‘‘
نیز فرمایا :
﴿أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ﴿١٤﴾... سورةلقمان
’’میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بی ( کہ تم کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
آپ پر واجب ہے کہ اپنے باپ سے بھلائی کریں'فعل وقول میں ان سے حصن سلوک کا معاملہ کریں اور اگر وہ ضرورت مند ہو تو آپ اپنی تنخواہ میں سے اسے اس قدر دیں جس سے آپ کو اور آپ کے بیوی بچوں کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((لاضرر ولاضرار)) (سنن ابن ماجه‘الاحكام‘باب من بني في حقه ما يضره بجاره‘ ح :٢٣٤-‘٢٣٤١)
’’نہ تکلیف دینا (جائز ہے) نہ کسی کی تکلیف دہی میں سبب بننا۔‘‘
باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت آپ سے مال کا مطالبہ کرے' جب کہ آپ کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہو' کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
((ان اطيب ما اكلتم من كسبكم وان اولادكم من كسبكم)) (سنن ابي داود ‘البيوع‘باب الرجل ياكل من مالي ولده‘ ح :٣٥٢٨ وجامع الترمذي‘الاحكام‘ باب ماجاء ان الولد ياخذ من مال ولده‘ ح:١٣٥٧ واللفظ له)
’’پاکیزہ مال جسے تم کھاتے ہو وہ ہے جسے تم نے کمایا ہو اور بلاشبہ تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے۔‘‘
ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کریں'ان کے ساتھ بھلائی اور احسان میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور ان کی رضا کو حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں' نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((رضا الرب في رضا الوالد وسخط الرب في سخط الوالد ) (جامع الترمذي ‘البر والصلة‘ باب ماجاء في الفضل في رضا الوالدين ‘ ح :١٨٩٩)
’’رب کی رضا والد کی رضا میں اور اس کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب