السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں آپ کی خدمت میں اپنی اور اپنے بھائیوں کی اپنی والدہ کے ساتھ مشکل صورت حال کو پیش کرتا ہوں۔بات یہ ہے کہ والدہ اس قدر کثرت سے ہمیں طعن وتشنیع کرتی اور برے انداز میں پیش آتی ہیں'جس کی وجہ سے ہم سے بھی بدتمیزی ہوجاتی ہے'ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اپنی والدہ کے نافرمان قرار پائیں یا اپنے ان شیطانی اعمال کی وجہ سے دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں۔ دینی احکام کی پابندی کی وجہ سے والدہ ہمیں طعن وتشنیع کرتی رہتی ہیں اور "مولویوں" کے نام سے ہمیں پکارتی ہیں'حالانکہ انہوں نے خود بھی تیسویں پارے کی بہت سی سورتیں حفظ کر رکھی ہیں۔سوموار اور جمعرات کے علاوہ ہر مہینے کے تین نفل روزے بھی رکھتی ہیں'نیز اس کے علاوہ نفل نمازیں ادا کرتی اور نفل روزے بھی رکھتی ہی۔ہم اپنے بھائی کے ساتھ جب سفر پر روانہ ہونے لگے تو اس وقت بھی انہوں نے ہمیں طعن وتشنیع 'کی گالیاں دیں اور مارا پیٹا اور وہ ہمارے حسب ونسب میں طعن کرتی اور ہماری عزت پامال کرتی ہیں اور ہمیں ایسی ایسی بددعائیں دیتی رہتی ہیں کہ کوئی ماں اپنے بچوں کو اس طرح کی بددعا ئیں نہیں دے سکتی ۔ جس کی وجہ سے ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم اسے چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں یا پھر ہمیں موت ہی آجائے تاکہ اس کے شہر سے بچ جائیں اور اب صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ۔۔۔فضیلۃالشیخ ! ہمیں اپنی والدہ کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ؟والدہ کے اس طرز عمل اور اپنی زندگی کے حوالہ سے ہم طریق کار اختیار کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے جواب کے دو پہلو ہیں۔ایک تو یہ کہ جو کچھ مذکورہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے اگر صحیح ہے تو میں اسے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے برا سلوک کرے گی تو یہ قطع رحمی اور کبیرہ گناہ ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَهَل عَسَيتُم إِن تَوَلَّيتُم أَن تُفسِدوا فِى الأَرضِ وَتُقَطِّعوا أَرحامَكُم ﴿٢٢﴾ أُولـٰئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُم وَأَعمىٰ أَبصـٰرَهُم ﴿٢٣﴾... سورة محمد
’’تم سے عجب نہیں ہے کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑڈالو ۔یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان (کے کانوں ) کو بہرا اور (ان کی )آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔‘‘
اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((لايدخل الجنة قاطع))(صحيح البخاري ‘الادب ‘باب اثم القاطع‘ ح : ٥٩٨٤) وصحيح مسلم ‘البر والصلة‘باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها ‘ ح:٢٥٥٦)
’’قطع رحمی کرنے واالا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
ماں کا بچوں کے ساتھ یہ طرز عمل ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔اس حدیث قدسی میں ہے جسے امام مسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا لہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((يا عبادي!اني حرمت الظلم علي نفسي ‘وجعلته بينكم ‘محرماً‘ فلا تظالموا)) (صحيح مسلم ‘البر والصلة‘باب تحريم الظلم ح: ٢٥٧٧ من حديث ابي ذر رضي الله عنه )
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر طلم کو حرام قراردیا ہے اور تمھارے مابین اسے تمہارے مابین بھی حرام قراردیا ہے لہذاایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔‘‘
ظلم قیامت کے دن بہت سی ظلمتوں اور تاریکیوں کا سبب بنے گا۔ غیراللہ (مخلوق) کے حق میں ظلم کو معاف نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کاتعلق حقوق العباد کو ادا کرنا از بس ضروری ہے۔نبی ﷺ نے ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ"تم مفلس کس کو کہتے ہو؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم یا ساز وسامان نہ ہو۔"آپ نے فرمایا :
((ان المفلس من امتي ّمن ياتي يوم القيمة بصلاة وصيام وزكاة وياتي قد شتم هذا وقذف هذا‘واكل مال هذا‘وسفك دم هذا‘وضرب هذا‘فيطي هذا من حسناته وهذا من حسناته‘فان فنيت حسناته ‘قبل ان يقضيٰ ما عليه اخذ من خطاياهم فطرحت عليه ثم طرح في النار)) (صحيح مسلم ‘البر والصلة‘باب تحريم الطلم ‘ ح:٢٥٨١)
’’مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نامز اور روزے اور زکوۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی 'کسی پر بہتان لگایا ہوگا'کسی کامال کھایا ہوگا؛کسی کو قتل کیا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کو بھی اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اس کو بھی اور اگر اس کے ذمہ حقوق کے پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈال دیا جائے گا اور پھر اسے جہنم رسید کردیا جائے گا۔‘‘
اس ماں کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے بیٹۓ اور بیٹیاں اس کے نافرمان ہوجائیں گے کیونکہ اکثر وبیشتر حالتوں میں انسانی نفوس طلم کو برداشت نہیں کرسکتے ۔لہذا یہ ماں اپنی اولاد کے نافرمانی میں مبتلا ہونے کا خود ہی سبب بنے گی اور پھر اس کے نتیجے میں اپنے بچوں کے ساتھ اس کی زندگی خوش گوار بھی نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا ہوتا رہے گا اور اختلافات اور مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا'لہذا اس ماں کو میری نصیحت ہے کہ یہ طرز عمل کو صحیح کرلے'اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے 'اولاد کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست کرے اور انکے ساتھ دستور کے مطابق زندگی بسر کرے تاکہ وہ بھی اپنے حقوق کو ادا کرسکیں'جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب قراردیا ہے۔
جواب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس ماں کے بیٹوں اور بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ صبر کریں ۔اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے مقدور بھر کوشش کرکے اپنی ماں سے حسن سلوک کریں۔ماں کی قطع رحمی کے باوجود جب یہ صلہ رحمی کریں گے تو یہ یقیناً نفع میں رہیں گے'نقصان ان کی ماں ہی کو ہوگا'لہذا انہیں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید کرتے ہوئے صبر کرنا چاہیے۔ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کے کچھ ایسے رشتہ دارہیں کہ یہ تو ان سے صلہ رحمی کرتا ہے مگر وہ اس سے قطع رحمی کرتے ہیں'یہ ان سے حسن سلوک کرتا ہے مگر وہ اس سے برا سلوک کرتے ہیں'یہ ان سے حلم وعقل کا معاملہ کرتا ہے مگر ان کا اس سے معاملہ جہالت پر مبنی ہوتا ہے۔یہ سن کر نبی ﷺ نے اس شخص سے فرمایا :
((لئن کنت کما قلت ،فکانما تسفھم المل ،ولا یزال معک من اللہ ظھیر علیہم ،مادمت علیٰ ذلک )) (صحیح مسلم ،البر والصلة‘باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها‘ ح :٢٥٥٨)
’’اگر تمہارا طرز عمل اسی طرح ہے جس طرح تو نے بیان کیا ہے'تو گویا تو ان کے چہروں پر گرم راکھ ڈالتا ہے اور جب تک تو اپنے اس حال پر قائم رہے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معاون (فرشتہ) ان کے مقابلہ میں تیری مدد کرتا رہے گا۔‘‘
اور "المل"کا معنی ہے گرم راکھ 'مطلب یہ ہے کہ تیرے لیے غنیمت ہے نہ کہ تاوان ؛کیونکہ نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
((ليس الوصل بالمكافي ء‘ ولكن الواصل الذي اذا قطعت رحمه وصلها ) (صحيح البخاري ‘الادب‘باب ليس الواصل بالمكافيء ح: ٥٩٩١)
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے 'بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
ان بیٹیوں اور بیٹیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماں سے مقدور بھر صلہ رحمی کریں'اس کی جفا اور سنگ دلی پر صبر کریں اور انتظار کریں کہ اللہ تعالیٰ مخلصی کی کوئی صورت پیدا فرمادے 'کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ۚ... ﴿٣﴾... سورةالطلاق
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے لیے (رنج ومحن ) سے مخلصی کی صورت پیدا کردے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم وگمان) بھی نہ ہو۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب