السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جانے کی نیت کی تو مکہ مکرمہ جانے کے وقت نجھ سے کہا گیا کہ ضروری ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کروں تاکہ قطع رحمی نہ ہو تو میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عمرہ کا ارادہ ترک کردیا تاکہ مجھے اپنے شوہر کے بھائی کے سامنے نہ جانا پڑ جائے'کیونکہ اس سے ملاقات کے لیے مجھے اس کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کرنا پڑے گا' تو کیا میرا یہ عمل صحیح ہے یا نہیں؟ آپ مجھے کیا نصیحت فرمائیں گے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ ...﴿٥٩﴾... سورةالنساء
’’اے مومنو!اللہ کے رسول کی فرماں برداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی‘‘
اس آیت میں اولوامر کی اطاعت کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کے تابع قرار دیا گیا ہے'لہذا جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں تعارض ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو مقدم قراردیا جائے گا کیونکہ خالق کی معصیت لازم آتی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ،اپنے شوہر کے بھائی کے سامنے آپ کے لیے منہ ننگا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ آپ جانتی ہیں کہ یہ حرام ہے 'لہذا آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ اپنے چہرے کو چھپائیں خواہ اس کے لیے آپ کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات منقطع ہوجائیں'کیونکہ قطع تعلق کا سبب وہ خود بنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو تو پھر ان کی بات ماننا لازم نہیں ہے لہذا جو بات اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے، آپ وہ ادا کریں اور اگر حدود الہی قائم کرنے کی وجہ سے وہ آپ سے تعلقات منقطع کریں تواس صورت میں ان کے مقابلہ میں آپ کامیاب ہیں اور ان پر بھی واجب یہ ہے کہ احکام الہی سن کر یہ کہیں (سمعنا واطعنا) "ہم نے اللہ کے حکم کو سن لیا اور اس کی اطاعت بجا لائیں گے " ان کو چاہیے کہ عادات کو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر غالب نہ کریں کیونکہ شریعت حاکم ہے 'محکوم نہیں ہے' جب کہ عادات محکوم ہیں'حاکم نہیں ہیں۔
خوب جان لینا چاہیے کہ عورت کے لیے سب سے خطرناک چیز شوہر کے رشتہ دار ہیں ۔ یہ رشتہ دار اجنبیوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں'کیونکہ نبی ﷺ نے جب عورتوں کے پاس جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
((اياكم والدخول علي النساء فقال رجل من الانصار: يارسول الله ! افرايت الحمو؟ قال: الحمؤالموت)) (صحيح البخاري ‘النكاح‘باب لايخلون رجل بامرءة الا ذومحرم ۔۔۔۔الخ‘ ح: ٥٢٣٢ وصحيح مسلم ‘السلام ‘باب تحريم الخلوة بالاجنبية والدخول عليها ‘ ح :٢١٧٢)
’’عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا 'یارسول اللہ ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا 'دیور تو موت ہے۔‘‘
یعنی خلوت وہ شر ہے جس سے بچنا واجب ہے 'اسی طرح "حمو" یعنی خاوند کی طرف سے قریبی رشتہ دار جو کہ بلا روک ٹوک گھر میں آتا جاتا ہے 'وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اس کا اپنا گھر ہے جس کی وجہ سے وہ بلا جھجھک گھر میں آتا ہے لیکن شیطان اس کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اس کے دل میں برائی کا خیال ڈال کر اسے برائی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ شیطان نے کتنے ہی لوگوں کو اس برائی میں مبتلا کرکے تباہ وبرباد کر ڈالا لہذا اس سے بچنا واجب ہے اورا س سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے قریبی رشتہ داروں سے بھی پردہ کرے۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سوال کرنے والی عورت کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے بھائی سے بھی اپنے چہرے کو چھپائے خواہ وہ اس سے ناراض ہوں اور تعلق قطع ہی کیوں نہ کرلیں لیکن اس کے باوجود اسے صلہ رحمی کرتے رہنا چاہیے خواہ وہ کوتاہی کریں کیونکہ کوتاہی کی وجہ سے گناہ انہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب