السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پچیس سال کا ایک نوجوان ہوں 'میرے والدین ساری زندگی آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے ہیں۔اگر میں ان میں سے ایک ساتھ حسن سلوک کروں تو دوسرا ناراض اور متنفر ہوجاتا ہے اور اگر دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤں تو پہلا ناراض ہوجاتا ہے اور مجھے نافرمان قرار دینے لگ جاتا ہے۔شیخ محترم ! میں کیا کروں تاکہ دونوں ہی سے حسن سلوک کی وجہ سے باپ کا نافرمان ہوجاؤں گا؟ امید ہے جواب سے نواز کر اجر و ثواب کے مستحق قرار پائیں گے ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ انسان کے انسان پر جو واجبات ہیں'ان میں سے سب سے بڑا واجب والدین سے نیکی اور حسن سلوک ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ...﴿٣٦﴾... سورةالنساء
’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔‘‘
اور فرمایا :
﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ ...﴿٢٣﴾... سورةالاسراؤ
’’اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرتے رہو ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ﴿١٤﴾... سورةلقمان
’’میرا شکر کرتا رہے اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
اس موضوع سے متعلق احادیث بھی بہت زیادہ ہیں' ہرحال ہر شخص کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے والدین یعنی ماں اور باپ دونوں ہی سے بھلائی کرے' اپنے مال سے 'بدن سے 'مقام ومرتبے سے اور ہر اس چیز کے ساتھ جو اس کی استطاعت میں ہو 'ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرے 'کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِوٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ﴿١٤﴾ وَإِن جـٰهَداكَ عَلىٰ أَن تُشرِكَ بى ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ فَلا تُطِعهُما ۖ وَصاحِبهُما فِى الدُّنيا مَعروفًا ۖ... ﴿١٥﴾... سورة لقمان
’’اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے( پھر اس کو دودھ پلاتی ہے)اور (آخر کار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے(نیز) اس کے ماں باپ کا بھی ( کہ تم ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور اگر وہ تیرے ساتھ کوشش کریں (تجھ پر دباؤ ڈالیں ) کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا نہ ماننا دنیا ( کے کاموں ) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔‘‘
دیکھیے اس آیت کریمہ میں تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرک والدین کا ساتھ دینے کا بھی حکم دیا ہے' جو اپنے بیٹے کو شرک کو شرک کا حکم دے رہے ہوں 'مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ایسے والدین کا بھی دنیا کے کاموں میں ساتھ دیا جائے۔لہذاان کے بارے میں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور یہ کہ آپ ان میں سےا یک کے ساتھ نیکی کریں تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے۔آپ پر دوکام واجب ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ مقدور بھر کوشش کریں کہ ان کا یہ لڑائی جھگڑا ختم ہو ؛کیونکہ ان دونوں میں سے ایک کے دوسرے پر کچھ حقوق ہیں' جنہیں ادا کرنا واجب ہے۔اگر آپ اس لڑائی جھگڑے کو ختم کراسکیں تو یہ بھی والدین کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہوگی 'اس سے گھر کا ماحول خوشگوار اور زندگی سعادتوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوجائے گی ۔ دوسرا کام آپ پر یہ واجب ہے کہ آپ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کریں اور دوسرے کی ناراضی کو آپ اس طرح ختم کرسکتے ہیں کہ اسے اپنے حسن سلوک کے بارے میں علم نہ ہونے دیں۔اس سے مطلوب ومقصود حاصل ہوجائے گا،آپ کو چاہیے کہ آپ اسے پسند نہ کریں کہ آپ کے ماں باپ اپنے اس لڑائی جھگڑے کو باقی رکھیں اور اگر آپ ان میں سے کسی ایک سے حسن سلوک کریں تو دوسرا ناراض ہو۔آپ کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ اپنے والدین میں سے ہر ایک کے سامنے یہ واضح کردیں کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ آپ کی صلہ رحمی کے یہ معنی نہیں کہ آپ دوسرے سے قطع رحمی کررہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیا ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب