سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) سجدہ سہو کے اسباب کا بیان

  • 1063
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3168

سوال

(268) سجدہ سہو کے اسباب کا بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ سہو کن اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نماز میں سجدہ سہو کے عموماً درج ذیل تین اسباب ہیں:

(۱)          نماز میں اضافہ کا صدورہوجانا۔

(۲)         یا نمازکمی کا وقوع ہو جانا

(۳) یانمازی کاشک میں مبتلا ہو جانا

 اضافے کی مثال یہ ہے کہ انسان نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے۔ اور کمی کی مثال یہ ہے کہ نماز کے کسی رکن کو کم کر دے یا واجبات میں کسی واجب کی ادائیگی میں نقص واقع ہوجائے۔ اور شک کی مثال یہ ہے کہ نمازی اس شک میں مبتلا ہو جائے آیا اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار؟ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ اس نے نماز کو اس طرح ادا نہیں کیا جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)) (صحيح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸، ۱۸)

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اگر بھول کر اضافہ ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی، البتہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے :

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب ظہر یا عصر کی نماز میںـ ایک بار دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تھا اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ نماز پڑھائی، پھر سلام پھیر ااور سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے کیے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ، حدیث: ۴۸۲)

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے : ’’ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز سے فارغ ہوئے تو عرض کیا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دونوں پاؤں کو موڑا، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، باب باب ماجاء فی القبلة ومن لم یر الاعادة… حدیث: ۴۰۴)

اگر کمی کا تعلق نماز کے ارکان میں سے کسی رکن سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

(۱)          اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ وہ اس رکن کو ادا کرنے کے بعد باقی نماز کو ادا کرے۔

(۲)         اگر اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے کے وقت یاد آئے تو یہ رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوگی جس میں اس نے رکن کو ترک کر دیا تھا اور اس دوسری رکعت کے بدلے میں اور رکعت پڑھنی چاہیے اور ان دونوں حالتوں میں اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے۔

 پہلی صورت اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلے سجدہ کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ بیٹھا ہو نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہو اب جب اس نے قراء ت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا ہے اور نہ وہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوٹ کر دو سجدوں کے درمیان بیٹھے، پھر سجدہ کرے اور پھر کھڑے ہو کر باقی نماز ادا کرے اور سلام کے بعد سجدئہ سہو کرے۔

دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلا سجدہ کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور اس نے دوسرا سجدہ نہ کیا ہو اور نہ وہ دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھا ہو اس کے بعد پھر اسے یہ بات  اس وقت یاد آئی ہو۔ جب وہ دوسری رکعت میں دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا ہو، اس حال میں اس کی یہ دوسری رکعت پہلی رکعت ہوگی اور اسے ایک رکعت اور پڑھنا ہوگی اور پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

جب کسی واجب میں کمی رہ جائے اور وہ اس کی جگہ دوسری جگہ منتقل ہو جائے، مثلاً: وہ سجدہ میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ پڑھنا بھول گیا اور سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے اسے نہیں پڑھا۔ اس نے بھول کر واجبات نماز میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اسے نماز کو جاری رکھنا چاہیے اور سلام سے قبل سجدہ سہو کر لینا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب تشہد اول کو بھول گئے تھے تو آپ نے نماز کو جاری رکھا تھا، واپس نہیں آئے تھے اور آپ نے سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لیا تھا۔

شک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو کمی اور بیشی میں تردد ہوتا ہے، مثلاً: یہ کہ اسے تردد ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اس کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:

(۱)          کمی یا بیشی میں سے کوئی ایک صورت اس کے نزدیک راجح ہو تو جو صورت راجح ہو اسے اختیار  کرکے نماز پوری کر لے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے اور اگر کوئی ایک صورت راجح نہ ہو تو پھر یقین پر انحصار کرے اور وہ کم تعداد ہے، اس کے بعد باقی نماز کو پورا کرنے کے بعد سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ وہ اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ وہ تیسری رکعت پڑھ رہا ہے یا چوتھی؟ اسے یہ بات راجح معلوم ہوئی کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے، اس صورت میں وہ ایک رکعت اور پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر سجدہ سہو کر لے۔

دونوں صورتوں میں برابری کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو نماز ظہر ادا کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے یا چوتھی اور اس کے نزدیک یہ بات راجح نہ تھی کہ یہ تیسری رکعت ہے اور نہ ہی یہ بات راجح تھی کہ یہ چوتھی رکعت ہے تو اس صورت میں اسے یقین پر انحصار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ کم تعداد ہے، لہٰذا وہ اسے تیسری رکعت قرار دے، پھر ایک رکعت اور پڑھے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو قبل از سلام اس وقت ہوگا، جب نمازی واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کر دے یا نماز کی رکعات کی تعداد میں اسے شک ہو جائے اور کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ اور جب نماز میں اضافہ ہو جائے یا شک کی صورت میں کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح ہو تو پھر سجدہ سہو بعد از سلام ہوگا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ293

محدث فتویٰ

تبصرے